(حج بدل کے شرائط)
مسئلہ ۱: حج بدل کے لیے چند شرطیں ہیں:
1 جو حج بدل کراتا ہو اس پر حج فرض ہو یعنی اگر فرض نہ تھا اور حج بدل کرایا تو حج فرض ادا نہ ہوا، لہٰذا اگر بعد میں حج اس پر فرض ہوا تو یہ حج اس کے لیے کافی نہ ہوگا بلکہ اگر عاجز ہو تو پھر حج کرائے اور قادر ہو تو خود کرے۔
2 جس کی طرف سے حج کیا جائے وہ عاجز ہو یعنی وہ خود حج نہ کرسکتا ہو اگر اس قابل ہو کہ خود کر سکتا ہے، تو اس کی طرف سے نہیں ہو سکتا اگرچہ بعد میں عاجز ہوگیا، لہٰذا اس وقت اگر عاجز نہ تھا پھر عاجز ہوگیا تو اب دوبارہ حج کرائے۔
3 وقتِ حج سے موت تک عذر برابر باقی رہے اگر درمیان میں اس قابل ہو گیا کہ خود حج کرے تو پہلے جو حج کیا جاچکا ہے وہ نا کافی ہے۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا عذر تھا، جس کے جانے کی امید ہی نہ تھی اور اتفاقاً جاتا رہا تو وہ پہلا حج جو اس کی طرف سے کیا گیا کافی ہے مثلاً وہ نابینا ہے اور حج کرانے کے بعد انکھیارا ہوگیا تو اب دوبارہ حج کرانے کی ضرورت نہ رہی۔
4 جس کی طرف سے کیا جائے اس نے حکم دیا ہو بغیر اس کے حکم کے نہیں ہوسکتا۔ ہاں وارث نے مورث کی طرف سے کیا تو اس میں حکم کی ضرورت نہیں۔
5 مصارف اُس کے مال سے ہوں جس کی طرف سے حج کیا جائے، لہٰذا اگر مامور نے اپنا مال صرف کیا حج بدل نہ ہوا یعنی جب کہ تبرّعاً ایسا کیا ہو اور اگر کُل یا اکثر اپنا مال صرف کیا اور جو کچھ اس نے دیا ہے اتنا ہے کہ خرچ اس میں سے وصول کرلے گا تو ہوگیا اور اتنا نہیں کہ جو کچھ اپنا خرچ کیا ہے وصول کرلے تو اگر زیادہ حصہ اس کا ہے جس نے حکم دیا ہے تو ہوگیا ورنہ نہیں۔
مسئلہ ۲: اپنا اور اُس کا مال ایک میں ملا دیا اور جتنا اُس نے دیا تھا اُتنا یا اس میں سے زیادہ حصہ کی برابر خرچ کیا تو حج بدل ہوگیا اور اس ملانے کی وجہ سے اُس پر تاوان لازم نہ آئے گابلکہ اپنے ساتھیوں کے مال کے ساتھ بھی ملا سکتا ہے۔ [1] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳: وصیت کی تھی کہ میرے مال سے حج کرا دیا جائے اور وارث نے اپنے مال سے تبرّعاً کرایا تو حج بدل نہ ہوا اور اگر اپنے مال سے حج کیا یوں کہ جو خرچ ہوگا ترکہ میں سے لے لے گا تو ہوگیا اور لینے کا ارادہ نہ ہو تو نہیں اور اجنبی نے حج بدل اپنے مال سے کرا دیا تو نہ ہوا اگرچہ واپس لینے کا ارادہ ہو اگرچہ وہ خود اسی کو حج بدل کرنے کے لیے کہہ گیا ہو اور اگر یوں وصیت کی کہ میری طرف سے حج بدل کرا دیا جائے اور یہ نہ کہا کہ میرے مال سے اور وارث نے اپنے مال سے حج کرا دیا اگرچہ لینے کا ارادہ بھی نہ ہو، ہوگیا۔[2](ردالمحتار)
مسئلہ ۴: میّت کی طرف سے حج کرنے کے لیے مال دیا اور وہ کافی تھا مگر اُس نے اپنا مال بھی کچھ خرچ کیا ہے تو جو خرچ ہوا وصول کرلے اور اگر نا کافی تھا مگر اکثر میّت کے مال سے صرف ہوا تو میّت کی طرف سے ہوگیا، ورنہ نہیں۔ [3] (عالمگیری)
6 جس کو حکم دیا وہی کرے، دوسرے سے اُس نے حج کرایا تو نہ ہوا۔
مسئلہ ۵: میّت نے وصیت کی تھی کہ میری طرف سے فُلاں شخص حج کرے اور وہ مر گیا یا اُس نے انکار کر دیا، اب دوسرے سے حج کرا لیا گیا تو جائز ہے۔[4] (ردالمحتار)
7 سواری پر حج کو جائے پیدل حج کیا تو نہ ہوا، لہٰذا سواری میں جو کچھ صرف ہوا دینا پڑے گا۔ ہاں اگر خرچ میں کمی پڑی تو پیدل بھی ہو جائے گا۔ سواری سے مراد یہ ہے کہ اکثر راستہ سواری پر قطع کیا ہو۔
8 اس کے وطن سے حج کو جائے۔
9 میقات سے حج کا احرام باندھے اگر اس نے اس کا حکم کیا ہو۔
10 اُس کی نیت سے حج کرے اور افضل یہ ہے کہ زبان سے بھی لَبَّیْکَ عَنْ فُـلَان [5] کہہ لے اور اگر اس کا نام بھول گیا ہے تو یہ نیت کرلے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی طرف سے کرتا ہوں اور ان کے علاوہ اور بھی شرائط ہیں جو ضمناً مذکور ہونگی۔ یہ شرطیں جو مذکور ہوئیں حجِ فرض میں ہیں، حجِ نفل ہو تو ان میں سے کوئی شرط نہیں۔ [6] (ردالمحتار)
مسئلہ ۶: احرام باندھتے وقت یہ نیت نہ تھی کہ کس کی طرف سے حج کرتا ہوں تو جب تک حج کے افعال شروع نہ کیے اختیار ہے کہ نیت کرلے۔ [7] (ردالمحتار)
مسئلہ ۷: جس کو بھیجے اس سے یوں نہ کہے کہ میں نے تجھے اپنی طرف سے حج کرنے کے لیے اجیر بنایا یا نوکر رکھا کہ عبادت پر اجارہ کیسا، بلکہ یوں کہے کہ میں نے اپنی طرف سے تجھے حج کے لیے حکم دیا اور اگر اجارہ کا لفظ کہا جب بھی حج ہو جائے گا مگر اُجرت کچھ نہ ملے گی صرف مصارف ملیں گے۔ [8] (ردالمحتار)
مسئلہ ۸: حجِ بدل کی سب شرطیں جب پائی جائیں تو جس کی طرف سے کیا گیا اس کا فرض ادا ہوا اور یہ حج کرنے والا بھی ثواب پائے گا مگر اس حج سے اُس کا حجۃ الاسلام ادا نہ ہوگا۔ [9] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۹: بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسا شخص بھیجا جائے جو خود حجۃ الاسلام (حجِ فرض) ادا کرچکا ہو اور اگر ایسے کو
بھیجا جس نے خود نہیں کیا ہے، جب بھی حجِ بدل ہو جائے گا۔ [10] (عالمگیری) اور اگر خود اس پر حج فرض ہو اور ادانہ کیا ہو تو اسے بھیجنا مکروہِ تحریمی ہے۔ [11] (منسک)
مسئلہ ۱۰: افضل یہ ہے کہ ایسے شخص کو بھیجیں جو حج کے طریقے اور اُس کے افعال سے آگاہ ہو اور بہتر یہ ہے کہ آزاد مرد ہو اور اگر آزاد عورت یا غلام یا باندی یا مراہق یعنی قریب البلوغ بچہ سے حج کرایا جب بھی ادا ہو جائے گا۔ [12] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۱۱: مجنون یا کافر (مثلاً وہابی زمانہ وغیرہ) کو بھیجا تو ادانہ ہوا کہ یہ اس کے اہل ہی نہیں۔ [13] (درمختار)
مسئلہ ۱۲: دو شخصوں نے ایک ہی کو حجِ بدل کے لیے بھیجا، اس نے ایک حج میں دونوں کی طرف سے لبیک کہا تو دونوں میں کسی کی طرف سے نہ ہوا بلکہ اس حج کرنے والے کا ہوا اور دونوں کو تاوان دے اور اب اگر چاہے کہ دونوں میں سے ایک کے لیے کر دے تو یہ بھی نہیں کرسکتا اور اگر ایک کی طرف سے لبیک کہا مگر یہ معیّن نہ کیا کہ کس کی طرف سے تو اگر یوہیں مبہم رکھا جب بھی کسی کا نہ ہوا اور اگر بعد میں یعنی افعال حج ادا کرنے سے پہلے معیّن کردیا تو جس کے لیے کیا اُس کا ہوگیا اور اگر احرام باندھتے وقت کچھ نہ کہا کہ کس کی طرف سے ہے نہ معیّن نہ مبہم جب بھی یہی دونوں صورتیں ہیں۔ [14] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۳: ماں باپ دونوں کی طرف سے حج کیا تو اُسے اختیار ہے کہ اس حج کو باپ کے لیے کردے یا ماں کے لیے اور اُس کا حج فرض ادا ہوگا یعنی جب کہ ان دونوں نے اُسے حکم نہ کیا اور اگر حج کا حکم دیا ہو تو اس میں بھی وہی احکام ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اور اگر بغیر کہے اپنے آپ دو شخصوں کی طرف سے حجِ نفل کا احرام باندھا تو اختیار ہے جس کے لیے چاہے کر دے مگر اس سے اُ س کا فرض ادانہ ہوگا جب کہ وہ اجنبی ہے۔ یوہیں ثواب پہنچانے کا بھی اختیا رہے بلکہ ثواب تو دونوں کو پہنچا سکتا ہے۔ [15] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴: حج فرض ہونے کے بعد مجنون ہو گیا تو اُس کی طرف سے حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ [16] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۵: صرف حج یا صرف عمرہ کو کہا تھا اُس نے دونوں کا احرام باندھا، خواہ دونوں اُسی کی طرف سے کیے یا ایک اس کی طرف سے، دوسرا اپنی یا کسی اور کی طرف سے بہر حال اس کا حج ادانہ ہوا تاوان دینا آئے گا۔ [17] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: حج کے لیے کہا تھا اُس نے عمرہ کا احرام باندھا ،پھر مکہ معظمہ سے حج کا جب بھی اُس کی مخالفت ہوئی لہٰذا تاوان دے۔[18] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۷: حج کے لیے کہا تھا اُس نے حج کرنے کے بعد عمرہ کیا یا عمرہ کے لیے کہا تھا اس نے عمرہ کر کے حج کیا، تو اِس میں مخالفت نہ ہوئی اُس کا حج یا عمرہ ادا ہوگیا۔ مگر اپنے حج یا عمرہ کے لیے جو خرچ کیا خود اس کے ذمہ ہے، بھیجنے والے پر نہیں اور اگر اُولٹا کیا یعنی جو اُس نے کہا اسے بعد میں کیا تو مخالفت ہوگئی ،اس کا حج یا عمرہ ادا نہ ہوا تاوان دے۔ [19] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۸: ایک شخص نے اس سے حج کو کہا دوسرے نے عمرہ کو مگر ان دونوں نے جمع کرنے کا حکم نہ دیا تھا، اس نے دونوں کو جمع کر دیا تو دونوں کا مال واپس دے اور اگر یہ کہہ دیا تھا کہ جمع کرلینا تو جائز ہوگیا۔[20] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۹: افضل یہ ہے کہ جسے حجِ بدل کے لیے بھیجا جائے، وہ حج کرکے واپس آئے اور جانے آنے کے مصارف بھیجنے والے پر ہیں اور اگر وہیں رہ گیا جب بھی جائز ہے۔ [21] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۰: حج کے بعد قافلہ کے انتظار میں جتنے دن ٹھہرنا پڑے، اِن دنوں کے مصارف بھیجنے والے کے ذمہ ہیں اور اس سے زائد ٹھہرنا ہو تو خود اس کے ذمہ مگر جب وہاں سے چلا تو واپسی کے مصارف بھیجنے والے پر ہیں اور اگر مکہ معظمہ میں بالکل رہنے کا ارادہ کر لیا تو اب واپسی کے اخراجات بھی بھیجنے والے پر نہیں۔ [22] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۱: جس کو بھیجا وہ اپنے کسی کام میں مشغول ہو گیا اور حج فوت ہوگیا تو تاوان لازم ہے، پھر اگر سال آئندہ اس نے اپنے مال سے حج کر دیا تو کافی ہو گیا اور اگر وقوفِ عرفہ سے پہلے جماع کیا جب بھی یہی حکم ہے اور اُسے اپنے مال سے سال آئندہ حج و عمرہ کرنا ہو گا اور اگر وقوف کے بعد جماع کیا تو حج ہوگیا اور اُس پر اپنے مال سے دَم دینا لازم اور اگر غیر اختیاری آفتمیں مبتلا ہو گیا تو جو کچھ پہلے خرچ ہوچکا ہے، اُس کا تاوان نہیں مگر واپسی میں اب اپنا مال خرچ کرے۔ [23] (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ ۲۲: نزدیک راستہ چھوڑ کر دُور کی راہ سے گیا ،کہ خرچ زیادہ ہوا اگر اس راہ سے حاجی جایا کرتے ہیں تو اس کا اُسے اختیار ہے۔[24] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: مرض یا دشمن کی وجہ سے حج نہ کرسکا یا اور کسی طرح پر مُحصر ہوا تو اس کی وجہ سے جو دَم لازم آیا، وہ اُس کے ذمہ ہے جس کی طرف سے گیا اور باقی ہرقسم کے دَم اِس کے ذمہ ہیں۔ مثلاً سلا ہو ا کپڑا پہنا یا خوشبو لگائی یا بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا یا شکار کیا یا بھیجنے والے کی اجازت سے قِران و تمتع کیا۔ [25] (درمختار)
مسئلہ ۲۴: جس پر حج فرض ہو یا قضا یا منّت کا حج اُس کے ذمہ ہو اور موت کا وقت قریب آگیا تو واجب ہے کہ وصیت کر جائے۔ [26] (منسک)
مسئلہ ۲۵: جس پر حج فرض ہے اورنہ ادا کیا نہ وصیت کی تو بالا جماع گنہگار ہے، اگر وارث اُس کی طرف سے حجِ بدل کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے۔ اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰی امید ہے کہ ادا ہو جائے اور اگر وصیت کر گیا تو تہائی مال سے کرایا جائے اگرچہ اُس نے وصیت میں تہائی کی قید نہ لگائی۔ مثلاً یہ کہہ مراکہ میری طرف سے حجِ بدل کرایا جائے۔ [27] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۲۶: تہائی مال کی مقدار اتنی ہے کہ وطن سے حج کے مصارف کے لیے کافی ہے تو وطن ہی سے آدمی بھیجا جائے، ورنہ بیرونِ میقات جہاں سے بھی اُس تہائی سے بھیجا جاسکے۔ یوہیں اگر وصیت میں کوئی رقم معیّن کردی ہو تو اس رقم میں اگر وہاں سے بھیجا جاسکتا ہے تو بھیجا جائے ورنہ جہاں سے ہوسکے اور اگر وہ تہائی یا وہ رقم معیّن بیرونِ میقات کہیں سے بھی کافی نہیں تو وصیت باطل۔[28] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۷: کوئی شخص حج کو چلا اور راستہ میں یا مکہ معظمہ میں وقوفِ عرفہ سے پہلے اُس کا انتقال ہوگیاتو اگر اُسی سال اُس پر حج فرض ہو ا تھا تو وصیت واجب نہیں اور اگر وقوف کے بعد انتقال ہوا تو حج ہوگیا، پھر اگر طوافِ فرض باقی ہے اور وصیت کرگیا کہ اُس کا حج پورا کردیا جائے تو اُس کی طرف سے بدنہ کی قربانی کردی جائے۔[29] (ردالمحتار)
مسئلہ ۲۸: راستہ میں انتقال ہوا اور حجِ بدل کی وصیت کرگیا تو اگر کوئی رقم یا جگہ معین کردی ہے تو اس کے کہنے کے موافق کیا جائے، اگرچہ اس کے مال کی تہائی اتنی تھی کہ اُس کے وطن سے بھیجا جاسکتا اور اس نے غیر وطن سے بھیجنے کی وصیت کی یا وہ رقم اتنی بتائی کہ اس میں وطن سے نہیں جایا جاسکتا تو گنہگار ہوا اور معین نہ کی تو وطن سے بھیجا جائے۔ [30] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۹: وصی نے یعنی جس کو کہہ گیا کہ تو میری طرف سے حج کرا دینا، غیر جگہ سے بھیجا اور تہائی اتنی تھی کہ وطن سے بھیجا جاسکتا ہے تو یہ حج میّت کی طرف سے نہ ہوا بلکہ وصی کی طرف سے ہوا، لہٰذا میّت کی طرف سے یہ شخص دوبارہ اپنے مال سے حج کرائے مگر جب کہ وہ جگہ جہاں سے بھیجا ہے وطن سے قریب ہو کہ وہاں جاکر رات کے آنے سے پہلے واپس آسکتا ہو تو ہو جائے گا۔[31](عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۰: مال اس قابل نہیں کہ وطن سے بھیجا جائے تو جہاں سے ہوسکے بھیجیں، پھر اگر حج کے بعد کچھ بچ رہا جس سے معلوم ہوا کہ اور ادہر سے بھیجا جاسکتا تھا تو وصی پر اس کا تاوان ہے، لہٰذا دوبارہ حجِ بدل وہاں سے کرائے جہاں سے ہو سکتا تھا مگر جب کہ بہت تھوڑی مقدار بچی مثلاً توشہ وغیرہ۔ [32] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۱: اگر اس کے لیے وطن نہ ہو تو جہاں انتقال ہوا وہاں سے حج کو بھیجاجا ئے اور اگر متعدد وطن ہوں تو ان میں جو جگہ مکہ معظمہ سے زیادہ قریب ہو وہاں سے۔ [33] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۲: اگر یہ کہہ گیا کہ تہائی مال سے ایک حج کرا دینا تو ایک حج کرا دیں اور چند حج کی وصیت کی اور ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتا تو ایک حج کرا دیں اس کے بعد جو بچے وارث لے لیں اور اگر یہ وصیت کی کہ میرے مال کی تہائی سے حج کرایاجائے یا کئی حج کرائے جائیں اور کئی ہو سکتے ہیں تو جتنے ہو سکتے ہیں کرائے جائیں، اب اگر کچھ بچ رہا جس سے وطن سے نہیں بھیجا جا سکتا تو جہاں سے ہو سکے اور کئی حج کی صورت میں اختیار ہے کہ سب ایک ہی سال میں ہوں یا کئی سال میں اور بہتر اول ہے۔ یوہیں اگر یوں وصیت کی کہ میرے مال کی تہائی سے ہر سال ایک حج کرایا جائے تو اس میں بھی اختیار ہے کہ سب ایک ساتھ ہوں یا ہر سال ایک اور اگر یوں کہا کہ میرے مال میں ہزار روپے سے حج کرایا جائے تو اس میں جتنے حج ہوسکیں کرا دیے جائیں۔ [34] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۳: اگر وصی سے یہ کہا کہ کسی کو مال دے کر میری طرف سے حج کرا دینا تو وصی خود اُس کی طرف سے حجِ بدل نہیں کرسکتا اور اگر یہ کہا کہ میری طرف سے حجِ بدل کرا دیا جائے تو وصی خودبھی کرسکتا ہے اور اگر وصی وارث بھی ہے یا وصی نے وارث کو مال دے دیا کہ وہ وارث حجِ بدل کرے تو اب باقی ورثہ اگر بالغ ہوں اور ان کی اجازت سے ہو تو ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ [35] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۴: حج کی وصیت کی تھی اُس کے انتقال کے بعد حج کے مصارف نکالنے کے بعد ورثہ نے مال تقسیم کرلیا، پھر وہ مال جو حج کے لیے نکالا تھا ضائع ہو گیا تو اب جو باقی ہے اُس کی تہائی سے حج کا خرچ نکالیں پھر اگر تلف ہو جائے تو بقیہ کی تہائی سے وعلیٰ ہذاالقیاس یہاں تک کہ مال ختم ہو جائے اور وہ مال وصی کے پاس سے ضائع ہوا ہو یا اس کے پاس سے جس کو حج کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں دونوں کا ایک حکم ہے۔ [36] (منسک)
مسئلہ ۳۵: جسے حج کرنے کو بھیجا وقوفِ عرفہ سے پیشتر اس کا انتقال ہوگیا یا مال چوری گیا پھر جو مال با قی رہ گیا، اُس کی تہائی سے دو بارہ وطن سے حج کرنے کے لیے کسی کو بھیجا جائے اور اگر اتنے میں وطن سے نہیں بھیجا جاسکتا تو جہاں سے ہوسکے اور اگر دوسرا شخص بھی مر گیا یا پھر مال چوری ہوگیا تو اب جو کچھ مال ہے، اس کی تہائی سے بھیجا جائے اور یکے بعد دیگرے یوہیں کرتے رہیں، یہاں تک کہ مال کی تہائی اس قابل نہ رہی کہ اس سے حج ہوسکے تو وصیت باطل ہوگئی اور اگر وقوفِ عرفہ کے بعد مرا تو وصیت پوری ہوگئی۔[37] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۳۶: جسے بھیجا تھا وہ وقوف کرکے بغیر طواف کیے واپس آیا تو میّت کا حج ہوگیا مگر اسے عورت کے پاس جانا حلال نہیں، اُسے حکم ہے کہ اپنے خرچ سے واپس جائے اور جو افعال باقی ہیں ادا کرے۔[38] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۳۷: وصی نے کسی کو اس سال حجِ بدل کے لیے مقرر کیا اور خرچ بھی دے دیا مگر وہ اس سال نہ گیا، سال آئندہ جاکر ادا کیا تو ہو گیا اُس پر تاوان نہیں۔[39] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۸: جسے بھیجا وہ مکہ معظمہ میں جا کر بیمار ہوگیا اور سارا مال خرچ ہوگیا تو وصی کے ذمّہ واپسی کے لیے خرچ بھیجنا لازم نہیں۔[40] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۹: جسے حج کے لیے مقرر کیا وہ بیمار ہوگیا تو اُسے یہ اختیار نہیں کہ دوسرے کو بھیج دے، ہاں اگر بھیجنے والے نے اُسے اجازت دیدی ہو تو دوسرے کو بھیج سکتا ہے۔ لہٰذا بھیجتے وقت چاہیے کہ یہ اجازت دیدی جائے۔ [41] (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۴۰: اگر اس سے یہ کہہ دیا کہ خرچ ختم ہو جائے تو قرض لے لینا اور اُس کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے تو جائز ہے۔[42](عالمگیری)
مسئلہ ۴۱: احرام کے بعد راستہ میں مال چوری گیا، اُس نے اپنے پاس سے خرچ کرکے حج کیا اور واپس آیا تو بغیر حکم قاضی بھیجنے والے سے وصول نہیں کرسکتا۔[43] (عالمگیری)
مسئلہ ۴۲: یہ وصیت کی کہ فُلاں شخص میری طرف سے حج کرے اور وہ شخص مر گیا تو کسی اور کو بھیج دیں مگر جب کہ حصر کر دیا ہو کہ وہی کرے دوسرا نہیں تو مجبوری ہے۔[44] (عالمگیری)
مسئلہ ۴۳: ایک شخص نے اپنی طرف سے حجِ بدل کے لیے خرچ دے کر بھیجا، بعداس کے اس کا انتقال ہوگیا اور حج کی وصیت نہ کی تو وارث اُس شخص سے مال واپس لے سکتے ہیں اگرچہ احرام باندھ چکا ہو۔[45] (درمختار)
مسئلہ ۴۴: مصارفِ حج سے مراد وہ چیزہیں جن کی سفرِ حج میں ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً کھانا پانی، راستہ میں پہننے کے کپڑے، احرام کے کپڑے، سواری کا کرایہ، مکان کا کرایہ، مشکیزہ، کھانے پینے کے برتن، جلانے اور سر میں ڈالنے کا تیل، کپڑے دھونے کے لیے صابون، پہرا دینے والے کی اُجرت، حجامت کی بنوائی غرض جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اُن کے اخراجات متوسط کہ نہ فضول خرچی ہو، نہ بہت کمی اور اُس کو یہ اختیار نہیں کہ اس مال میں سے خیرات کرے یا کھانا فقیروں کو دیدے یا کھاتے وقت دوسروں کو بھی کھلائے ہاں اگر بھیجنے والے نے ان اُمور کی اجازت دیدی ہو تو کرسکتا ہے۔ [46] (لباب)
مسئلہ ۴۵: جس کو بھیجا ہے اگر وہ اپنا کام اپنے آپ کیا کرتا تھا اور اب خادم سے کام لیا تو اس کا خرچ خود اس کے ذمہ ہے اور اگر خود نہیں کرتا تھا تو بھیجنے والے کے ذمہ۔ [47] (عالمگیری)
مسئلہ ۴۶: حج سے واپسی کے بعد جو کچھ بچا واپس کردے، اُسے رکھ لینا جائز نہیں اگرچہ وہ کتنی ہی تھوڑی سی چیز ہو، یہاں تک کہ توشہ میں سے جو کچھ بچا وہ اور کپڑے اور برتن غرض تمام سامان واپس کردے بلکہ اگر شرط کرلی ہو کہ جو بچے گا واپس نہ کروں گا جب بھی کہ یہ شرط باطل ہے مگر دو۲ صورتوں میں، او۱ ل یہ کہ بھیجنے والا اسے وکیل کردے کہ جو بچے اُسے اپنے کو تو ہبہ کردینا اور قبضہ کرلینا، دوم۲ یہ کہ اگر قریب بمرگ ہو تو اُسے وصیت کر دے کہ جو بچے اُس کی میں نے تجھے وصیت کی اور اگر یوں وصیت کی کہ وصی سے کہہ دیا کہ جو بچے وہ اُس کے لیے ہے جو بھیجا جائے یا تو جسے چاہے دیدے تو یہ وصیت باطل ہے وارث کا حق ہو جائے گا اور واپس کرنا پڑے گا۔[48] (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۷: یہ وصیت کی کہ ایک ہزار فُلاں کو دیا جائے اور ایک ہزار مسکینوں کو اور ایک ہزار سے حج کرایا جائے اور ترکہ کی تہائی کل دو ہزار ہے تو دو ہزار میں برابر برابر کے تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ تو اُسے دیں جس کے لیے کہا اور حج و مساکین کے دونوں حصے ملاکر جتنے سے حج ہوسکے حج کرایا جائے اور جو بچے مسکینوں کو دیا جائے۔[49] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۴۸: زکاۃ و حج اور کسی کو دینے کی وصیت کی تو تہائی کے تین حصے کریں اور زکاۃ و حج میں جسے اُس نے پہلے کہا اُسے پہلے کریں۔ اُس سے جو بچے دوسرے میں صرف کریں، فرض اور منّت کی وصیت کی تو فرض مقدم ہے اور نفل و نذر میں نذر (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۲۰۱ تا ۱۲۱۰)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''،کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۷. و''ردالمحتار''،کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ،مطلب في الاستئجار علی الحج، ج۴، ص۲۳.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''،کتاب الحج،ج۴، ص۲۸.
[3] ۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر
في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۷.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار'' ، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، مطلب في الفرق بین العبادۃ والقربۃ والطاعۃ، ج۴، ص۱۹.
[5] ۔۔۔۔۔۔ فلاں کی جگہ جس کے نام پر حج کرنا چاہتا ہے اُس کا نام لے مثلاًلبیک عَنْ عَبْدِ اللہ ۔
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، مطلب شروط الحج عن الغیر عشرون، ج۴، ص۲۰.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، مطلب في الفرق بین العبادۃ والقربۃ والطاعۃ، ج۴، ص۱۸.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ،مطلب في الاستئجار علی الحج، ج۴، ص۲۲.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، مطلب في الاستئجار علی الحج، ج۴، ص۲۴.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۵۷.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ''المسلک المتقسط'' للقاری، (باب الحج عن الغیر)، ص۴۵۳.
[12] ۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج۴، ص۲۵، وغیرہ.
[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج۴، ص۲۶.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۷.
[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۷. و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب العمل علی القیاس دون الاستحسان ھنا، ج۴، ص۳۱.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب شروط الحج عن الغیر عشرون، ج۴، ص۲۱.
[17] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۸.
[18] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، مطلب العمل علی القیاس... إلخ، ج۴، ص۳۶.
[19] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[20] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۸.
[21] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[22] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[23] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۸. و''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ، ج۴، ص۳۶.
[24] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۸.
[25] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ، ج۴، ص۳۶۔۳۷.
[26] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط'' ، (باب الحج عن الغیر)، ص۴۳۴.
[27] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۸.
[28] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الرابع عشر في الحج عن الغیر، ج۱، ص۲۵۹. و''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب العمل علی القیاس... إلخ، ج۴، ص۳۷.
[29] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب في حج الصرورۃ، ج۴، ص۲۷.
[30] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب في حج الصرورۃ، ج۴، ص۲۷.
[31] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۵۹.و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب العمل علی القیاس دون الاستحسان ھنا، ج۴، ص۲۷.
[32] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۵۹.
[33] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[34] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۵۹. و''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب العمل علی القیاس دون الاستحسان ھنا، ج۴، ص۲۷.
[35] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۵۹.
[36] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و ''المسلک المتقسط'' ، (باب الحج عن الغیر)، ص۴۵۴۔۴۵۵.
[37] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ، ج۴، ص۳۷، وغیرہ.
[38] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۶۰.
[39] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[40] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[41] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. و''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ، ج۴، ص۲۶.
[42] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۶۰.
[43] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[44] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[45] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر ، ج۴، ص۴۰.
[46] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک''، (باب الحج عن الغیر، فصل فی النفقۃ)، ص۴۵۶۔۴۵۷.
[47] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۶۰.
[48] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر مطلب العمل علی القیاس... إلخ، ج۴، ص۳۸.
[49] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب الخامس عشر في الوصیۃ بالحج، ج۱، ص۲۶۰.
Comments