غُسل کے فرائض
اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے:
(وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاؕ-)[1]
اگرتم جنب ہو تو خوب پاک ہو جاؤیعنی غسل کرو۔
اور فرماتا ہے :
(حَتّٰى یَطْهُرْنَۚ-) [2]
یہاں تک کہ وہ حَیض والی عورتیں اچھی طرح پاک ہو جائیں۔ (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۱۱)
غُسل کے مسائل
غُسل کے فرض ہونے کے اسباب بعد میں لکھے جائیں گے، پہلے غُسل کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔غُسل کے تین جز ہیں اگر ان میں ایک میں بھی کمی ہوئی غُسل نہ ہو گا، چاہے یوں کہو کہ غُسل میں تین فرض ہیں۔
(۱) کُلّی: کہ مونھ کے ہر پُرزے گوشے ہونٹ سے حَلْق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہ جائے۔ اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ تھوڑا سا پانی مونھ میں لے کر اُگل دینے کو کُلّی کہتے ہیں اگرچہ زبان کی جڑ اور حَلْق کے کنارے تک نہ پہنچے یوں غُسل نہ ہو گا، نہ اس طرح نہانے کے بعد نماز جائز بلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے، گالوں کی تہہ میں، دانتوں کی جڑ اور کھڑکیوں میں، زبان کی ہر کروٹ میں، حَلْق کے کنارے تک پانی بہے۔[3]
مسئلہ ۱: دانتوں کی جڑوں یا کھڑکیوں میں کوئی ایسی چیز جو پانی بہنے سے روکے، جمی ہو تو اُس کا چُھڑانا ضروری ہے اگر چھڑانے میں ضرر اور حَرَج نہ ہو جیسے چھالیا کے دانے، گوشت کے ریشے اور اگر چھڑانے میں ضرر اور حَرَج ہو جیسے بہت پان کھانے سے دانتوں کی جڑوں میں چونا جم جاتا ہے یا عورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑوں کی مضرّت کا اندیشہ ہے تو معاف ہے۔ [4]
مسئلہ ۲: یوں ہی ہِلتاہوا دانت تار سے یا اُکھڑا ہوا دانت کسی مسالے و غیرہ سے جمایا گیا اور پانی تار یا مسالے کے نیچے نہ پہنچے تو معاف ہے یا کھانے یا پان کے ریزے دانت میں رہ گئے کہ اس کی نگہداشت میں حَرَج ہے۔ ہاں بعد معلوم ہونے کے اس کو جدا کرنا اور دھونا ضروری ہے جب کہ پانی پہنچنے سے مانع ہوں۔ [5]
(۲) ناک میں پانی ڈالنا یعنی دونوں نتھنوں کا جہاں تک نَرْم جگہ ہے دھلنا کہ پانی کو سُونگھ کر اوپر چڑھائے، بال برابر جگہ بھی دھلنے سے رہ نہ جائے ورنہ غُسل نہ ہو گا۔ ناک کے اندر رِینٹھ سُوکھ گئی ہے تو اس کا چُھڑانا فرض ہے۔نیز ناک کے بالوں کا دھونا بھی فرض ہے۔ [6]
مسئلہ ۳: بلاق کا سوراخ اگر بند نہ ہو تو اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے، پھر اگر تنگ ہے تو حرکت دینا ضروری ہے ورنہ نہیں۔[7]
(۳) تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جِسْم کے ہر پُرزے ہر رُونگٹے پر پانی بہ جانا،اکثر عوام بلکہ بعض پڑھے لکھے یہ کرتے ہیں کہ سر پر پانی ڈال کر بدن پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں اور سمجھے کہ غُسل ہو گیا حالانکہ بعض اعضا ایسے ہیں کہ جب تک ان کی خاص طور پر اِحْتِیاط نہ کی جائے نہیں دھلیں گے اور غُسل نہ ہوگا [8] ، لہٰذا بالتفصیل بیان کیا جاتا ہے۔ اعضائے وُضو میں جو مواضِعِ اِحْتِیاط ہیں ہر عُضْوْ کے بیان میں ان کا ذکر کر دیا گیا ان کایہاں بھی لحاظ ضروری ہے اور ان کے علاوہ خاص غُسل کے ضروریات یہ ہیں۔
(۱) سر کے بال گندھے نہ ہوں تو ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا اور گندھے ہوں تو مرد پر فرض ہے کہ ان کو کھول کر جڑ سے نوک تک پانی بہائے اورعورت پر صرف جڑ تر کرلینا ضروری ہے کھولنا ضرور ی نہیں، ہاں اگر چوٹی اتنی سَخْت گُندھی ہو کہ بے کھولے جڑیں تر نہ ہوں گی تو کھولنا ضروری ہے۔
(۲) کانوں میں بالی وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا وہی حکم ہے جو ناک میں نَتھ کے سوراخ کا حکم وُضو میں بیان ہوا۔
(۳) بَھوؤں اورمونچھوں اور داڑھی کے بال کا جڑ سے نوک تک اور ان کے نیچے کی کھال کا دُھلنا ۔
(۴) کان کا ہر پرزہ اور اس کے سوراخ کا مونھ ۔
(۵) کانوں کے پیچھے کے بال ہٹا کر پانی بہائے ۔
(۶) ٹھوڑی اور گلے کا جوڑ کہ بے مونھ اٹھائے نہ دھلے گا۔
(۷) بغلیں بے ہاتھ اٹھائے نہ دھلیں گی۔
(۸) بازو کا ہر پہلو۔
(۹) پِیٹھ کا ہرذرہ۔
(۱۰) پیٹ کی بلٹیں اٹھا کر دھوئیں ۔
(۱۱) ناف کو انگلی ڈال کر دھوئیں جب کہ پانی بہنے میں شک ہو۔
(۱۲) جِسْم کا ہر رُونگٹا جڑ سے نوک تک ۔
(۱۳) ران اور پَیڑو [9] کا جوڑ۔
(۱۴) ران اور پنڈلی کا جوڑ جب بیٹھ کر نہائیں ۔
(۱۵) دونوں سُرین کے ملنے کی جگہ خُصُوصاً جب کھڑے ہو کر نہائیں۔
(۱۶) رانوں کی گولائی (۱۷) پنڈلیوں کی کروٹیں (۱۸) ذَکر و انثیین[10]کے ملنے کی سطحیں بے جدا کیے نہ دھلیں گی۔ (۱۹) انثیین کی سطحِ زیریں جوڑ تک (۲۰) انثیین کے نیچے کی جگہ جڑ تک (۲۱) جس کا ختنہ نہ ہوا ہوتو اگر کھال چڑھ سکتی ہو تو چڑھا کر دھوئے اور کھال کے اندر پانی چڑھائے۔ عورتوں پر خاص یہ اِحْتِیاطیں ضروری ہیں۔ (۲۲) ڈھلکی ہوئی پِستان کو اٹھا کر دھونا (۲۳) پستان و شکم کے جوڑ کی تحریر (۲۴) فرجِ خارِج [11] کا ہر گوشہ ہر ٹکڑا نیچے اوپر خیال سے دھویا جائے، ہاں فرجِ داخل [12]میں انگلی ڈال کر دھونا واجب نہیں مستحب ہے۔ [13] یوہیں اگر حَیض و نِفاس سے فارغ ہو کر غُسل کرتی ہے تو ایک پرانے کپڑے سے فرجِ داخل کے اندر سے خون کا اثر صاف کر لینا مستحب ہے۔ (۲۵) ماتھے پر افشاں چنی ہو تو چُھڑانا ضروری ہے۔
مسئلہ ۴: بال میں گِرہ پڑجائے توگِرہ کھول کراس پرپانی بہاناضروری نہیں۔[14]
مسئلہ ۵: کسی زخم پر پٹی وغیرہ بندھی ہو کہ اس کے کھولنے میں ضرر یا حَرَج ہو،یا کسی جگہ مرض یا درد کے سبب پانی بہنا ضرر کریگا تو اس پورے عُضْوْ کو مسح کریں اور نہ ہو سکے تو پٹی پر مسح کافی ہے اور پٹی مَوضَعِ حاجت سے زِیادہ نہ رکھی جائے ورنہ مسح کافی نہ ہوگا اور اگر پٹی مَوضَعِ حاجت ہی پر بندھی ہے مثلاً بازو پر ایک طرف زخم ہے اور پٹی باندھنے کے لیے بازو کی اتنی ساری گولائی پر ہونا اس کا ضرور ہے تو اس کے نیچے بدن کا وہ حصہ بھی آئے گا جسے پانی ضرر نہیں کرتا، تو اگر کھولنا ممکن ہو کھول کر اس حصہ کا دھونا فرض ہے اور اگر ناممکن ہو اگرچہ یوہیں کہ کھول کر پھرو یسی نہ باندھ سکے گا اور اس میں ضرر کا اندیشہ ہے تو ساری پٹی پر مسح کرلے کافی ہے، بدن کا وہ اچھا حصہ بھی دھونے سے معاف ہو جائے گا۔
مسئلہ ۶: زکام یا آشوبِ چشم وغیرہ ہو اور یہ گمانِ صحیح ہو کہ سر سے نہانے میں مرض میں زیادتی یا اورا مراض پیدا ہو جائیں گے تو کُلّی کرے، ناک میں پانی ڈالے اور گردن سے نہالے اور سر کے ہر ذرّہ پر بِھیگا ہاتھ پھیرلے غُسل ہو جائے گا،
بعدصحت سر دھو ڈالے باقی غُسل کے اعادہ کی حاجت نہیں۔ [15]
مسئلہ ۷: پکانے والے کے ناخن میں آٹا، لکھنے والے کے ناخن وغیرہ پر سیاہی کا جرم، عام لوگوں کے لیے مکّھی مچھر کی بیٹ اگر لگی ہو تو غُسل ہو جائیگا۔ ہاں بعد معلوم ہونے کے جدا کرنا اور اس جگہ کو دھونا ضروری ہے پہلے جو نماز پڑھی ہوگئی۔ [16](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۳۱۶تا ۳۱۹)
[1] ۔۔۔۔۔۔ پ ۶، المائدۃ:۶.
[2] ۔۔۔۔۔۔ پ ۲، البقرۃ: ۲۲۲.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۳۹،۴۴۰.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۴۰،۴۴۱.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۵۲،۴۵۳. وغیرہ
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و''ردالمحتار''، کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، ج۱، ص۳۱۲.و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۴۲،۴۴۳.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۴۵.
[8] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق ص۴۴۳.
[9] ۔۔۔۔۔۔ پیڑو یعنی ناف سے نیچے کا حصہ ۔
[10] ۔۔۔۔۔۔ انثیین یعنی خصیی ۔فوط۔
[11] ۔۔۔۔۔۔ عورت کی شرمگاہ کا بیرونی حصہ۔
[12] ۔۔۔۔۔۔ شرمگاہ کا اندرونی حصہ۔
[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۴۸،۴۵۰.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۵۲.
[15] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ'' ، ج۱، ص۴۵۶، ۴۶۱.
[16] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱، ص۴۵۵.
Comments