منّت کے روزہ کا بیان
شرعی منّت جس کے ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، اس کے لیے مطلقاً چند شرطیں ہیں۔
(۱) ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو، عیادتِ مریض اور مسجد میں جانے اور جنازہ کے ساتھ جانے کی منت نہیں ہو سکتی۔
(۲) وہ عبادت خود بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو، لہٰذا وضو و غسل و نظرِ مصحف کی منّت صحیح نہیں۔
(۳) اس چیز کی منّت نہ ہو جو شرع نے خو د اس پر واجب کی ہو، خواہ فی الحال یا آئندہ مثلاً آج کی ظہر یا کسی فرض نماز کی منّت صحیح نہیں کہ یہ چیزیں تو خود ہی واجب ہیں۔
(۴) جس چیز کی منّت مانی وہ خود بذاتہٖ کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور اگر کسی اور وجہ سے گناہ ہو تو منّت صحیح ہو جائے گی، مثلاً عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے، اگر اس کی منّت مانی تومنّت ہو جائے گی اگرچہ حکم یہ ہے کہ اُس دن نہ رکھے، بلکہ کسی دوسرے دن رکھے کہ یہ ممانعت عارضی ہے یعنی عید کے دن ہونے کیوجہ سے، خود روزہ ایک جائز چیز ہے۔
(۵) ایسی چیز کی منت نہ ہو جس کا ہونا محال ہو، مثلاً یہ منت مانی کہ کل گزشتہ میں روزہ رکھوں گا یہ منت صحیح نہیں۔ [1]
مسئلہ ۱: منت صحیح ہونے کے لیے کچھ یہ ضرور نہیں کہ دل میں اس کا ارادہ بھی ہو، اگر کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے منت کے الفاظ جاری ہوگئے منت صحیح ہوگئی یا کہنا یہ چاہتا تھا کہ اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کے لیے مجھ پر ایک دن کاروزہ رکھنا ہے اور زبان سے ایک مہینہ نکلا مہینے بھر کا روزہ واجب ہوگیا۔ [2] (ردالمحتار)
مسئلہ ۲: ایّام منہیّہ یعنی عید و بقرعید اور ذی الحجہ کی گیارھویں بارھویں تیرھویں کے روزے رکھنے کی منت مانی اور انھیں دِنوں میں رکھ بھی لیے تو اگرچہ یہ گناہ ہوا مگر منت ادا ہوگئی۔ [3] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۳: اس سال کے روزے کی منت مانی تو ایّام منہیّہ چھوڑ کر باقی دنوں میں روزے رکھے اور ان دنوں کے بدلے کے اور دنوں میں رکھے اور اگر ایّام منہیّہ میں بھی رکھ لیے تو منت پوری ہوگئی مگر گنہگار ہوا۔ یہ حکم اُس وقت ہے کہ ایّام منہیّہ سے پہلے منت مانی اور اگر ایّام منہیّہ گزرنے کے بعد مثلاً ذی الحجہ کی چودھویں شب میں اس سال کے روزے کی منت مانی تو ختم ذی الحجہ تک روزہ رکھنے سے منت پوری ہوگئی کہ یہ سال ختم ذی الحجہ پر ختم ہو جاتا ہے اور رمضان سے پہلے اس سنہ کے روزے کی منت مانی تھی تو رمضان کے بدلے کے روزے اس کے ذمّہ نہیں۔
اور اگر منّت میں پے در پے روزہ کی شرط یا نیّت کی جب بھی جن دنوں میں روزہ کی ممانعت ہے، اُن میں روزہ نہ رکھے۔ مگر بعد میں پے در پے ان دنوں کی قضا رکھے اور اگر ایک دن بھی بے روزہ رہا تو اس دن کے پہلے جتنے روزے رکھے تھے، ان سب کا اعادہ کرے اور اگر ایک سال کے روزے کی منّت کی تو سال بھر روزہ رکھنے کے بعد پینتیس ۳۵ یا چونتیس ۳۴ دن کے اور رکھے یعنی ماہِ رمضان اور پانچ دن ایّام ممنوعہ کے بدلے کے، اگرچہ ان دنوں میں بھی اُس نے روزے رکھے ہوں کہ اس صورت میں یہ ناکافی ہیں۔ البتہ اگر یوں کہا کہ ایک سال کے روزے پے درپے رکھوں گا تو اب ان پینتیس ۳۵ دنوں کے روزوں کی ضرورت نہیں، مگر اس صورت میں اگر پے درپے نہ ہوں گے تو سرے سے پھر رکھنے ہوں گے، مگر ایّام ممنوعہ میں نہ رکھے بلکہ سال پورا ہونے پر پانچ دن علی الاتصال رکھ لے۔ [4] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۴: منّت کے الفاظ میں یمین[5] کا بھی احتمال ہے، لہٰذا یہاں چھ صورتیں ہوں گی۔
(۱) ان لفظوں سے کچھ نیّت نہ کی نہ منّت کی نہ یمین کی۔
(۲) فقط منت کی نیّت کی یعنی یمین ہونے نہ ہونے کسی کا ارادہ نہ کیا۔
(۳) منت کی نیّت کی اور یہ کہ یمین نہیں۔
(۴) یمین کی نیّت کی اور یہ کہ منّت نہیں۔
(۵) منت اور یمین دونوں کی نیّت کی۔
(۶) فقط یمین کی نیّت کی اور منت ہونے یا نہ ہونے کسی کی نہیں۔
پہلی تین صورتوں میں فقط منت ہے کہ پوری نہ کرے تو قضا دے اورچوتھی صورت میں یمین ہے کہ اگر پوری نہ کی تو کفارہ دینا ہوگا۔ پانچویں اور چھٹی صورتوں میں منت اور یمین دونوں ہیں، پوری نہ کرے تو منّت کی قضا دے اور یمین کا کفارہ۔ [6] (تنویرالابصار)
مسئلہ ۵: اس مہینے کے روزے کی منت مانی اور اس میں ایّام منہیّہ ہیں تو اُن میں روزے نہ رکھے، بلکہ اُن کے بدلے کے بعد میں رکھے اور رکھ لیے تو گنہگار ہوا مگر منت پوری ہوگئی اور اس صورت میں پورے ایک مہینے کے روزے واجب نہیں، بلکہ منت ماننے کے وقت سے اُس مہینے میں جتنے دن باقی ہیں اُن دنوں میں روزے واجب ہیں اور اگر وہ مہینہ رمضان کاتھا تو منت ہی نہ ہوئی کہ رمضان کے روزے تو خود ہی فرض ہیں۔ ہاں اگر ماہِ رمضان کے روزوں کی منت مانی اور رمضان آنے سے پہلے انتقال ہوگیا تو ایک ماہ تک مسکین کو کھانا کھلانے کی وصیت واجب ہے۔
اور اگر کسی معیّن مہینے کی منت مانی، مثلاً رجب یا شعبان کی توپورے مہینہ کا روزہ ضرور ہے، و ہ مہینہ اونتیس کا ہو تو اونتیس روزے اور تیس کا ہو تو تیس اور ناغہ نہ کرے پھر اگر کوئی روزہ چھوٹ گیا تو اس کو بعد میں رکھ لے پورے مہینے کے لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ [7] (ردالمحتار وغیرہ)
مسئلہ ۶: ایک مہینے کے روزے کی منت مانی تو پورے تیس ۳۰ دن کے روزے واجب ہیں، اگرچہ جس مہینے میں رکھے وہ انتیس ہی کا ہو اور یہ بھی ضرور ہے کہ کوئی روزہ ایّام منہیّہ میں نہ ہو کہ اس صورت میں اگر ایّام منہیّہ میں روزے رکھے تو گنہگار تو ہوا ہی، وہ روزے بھی ناکافی ہیں اور پے درپے کی شرط لگائی یا دل میں نیّت کی تو یہ بھی ضرور ہے کہ ناغہ نہ ہونے پائے اگر ناغہ ہوا، اگرچہ ایّام منہیّہ میں تو اب سے ایک مہینے کے علی الاتصال روزے رکھے یعنی یہ ضرور ہے کہ ان تیس دنوں میں کوئی دن ایسا نہ ہو، جس میں روزہ کی ممانعت ہے اور پے در پے کی نہ شرط لگائی، نہ نیّت میں ہے تو متفرق طور پر تیس روزے رکھ لینے سے بھی منت پوری ہو جائے گی۔
اور اگرعورت نے ایک ماہ پے در پے روزے رکھنے کی منّت مانی تو اگر ایک مہینہ یا زیادہ طہارت کا زمانہ اُسے ملتا ہے تو ضرور ہے کہ ایسے وقت شروع کرے کہ حیض آنے سے پیشتر تیس دن پورے ہو جائیں، ورنہ حیض آنے کے بعد اب سے تیس پورے کرنے ہوں گے اور اگر مہینہ پورا ہونے سے پہلے اُسے حیض آجایا کرتا ہے تو حیض سے پہلے جتنے روزے رکھ چکی ہے، انھیں حساب کر لے جو باقی رہ گئے، انھیں حیض ختم ہونے کے بعد متصلاً بلاناغہ پورا کرلے۔ [8] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۷: پے در پے روزے کی منت مانی تو ناغہ کرنا جائز نہیں اور متفرق طور پر مثلاً دس ۱۰ روزے کی منت مانی تو لگاتار رکھنا جائز ہے۔[9] (بحر)
مسئلہ ۸: منت دو قسم ہے۔
ایک معلّق کہ میرافلاں کام ہو جائے گا یا فلاں شخص سفر سے آجائے تو مجھ پر اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کے لیے اتنے روزے یا نماز یا صدقہ وغیرہا ہے۔
دوسری غیر معلّق جو کسی چیز کے ہونے، نہ ہونے پر موقوف نہیں بلکہ یہ کہ اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کے لیے میں اپنے اوپر اتنے روزے یا نماز یا صدقہ وغیرہا واجب کرتا ہوں۔ غیر معلّق میں اگرچہ وقت یا جگہ وغیرہ معیّن کرے، مگر منت پوری کرنے کے لیے یہ ضرور نہیں کہ اس سے پیشتر یا اس کے غیر میں نہ ہوسکے، بلکہ اگر اس وقت سے پیشتر روزے رکھ لیے یا نماز پڑھ لی وغیرہ وغیرہ تو منت پوری ہوگئی۔[10] (درمختار)
مسئلہ ۹: اس رجب کے روزے کی منت مانی اور جمادی الآخرہ میں روزے رکھ لیے اور یہ مہینہ انتیس کا ہوا، اگر یہ رجب بھی انتیس کا ہو تو پوری ہوگئی ایک اور روزہ کی ضرورت نہیں اور تیس کا ہوا تو ایک روزہ اور رکھے۔[11] (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۰: اس رجب کے روزہ کی منت مانی اور رجب میں بیمار رہا تو دوسرے دنوں میں ان کی قضا رکھے اور قضا میں اختیار ہے کہ لگاتار روزے ہوں یا ناغہ دے کر۔[12] (درمختار)
مسئلہ ۱۱: معلّق میں شرط پائی جانے سے پہلے منت پوری نہیں کر سکتا، اگر پہلے ہی روزے رکھ لیے بعد میں شرط پائی گئی تو اب پھر رکھنا واجب ہوگا، پہلے کے روزے اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔[13] (درمختار)
مسئلہ ۱۲: ایک دن کے روزے کی منت مانی تو اختیار ہے کہ ایّام منہیّہ کے سوا جس دن چاہے روزہ رکھ لے۔ یوہیں دو دن، تین دن میں بھی اختیار ہے، البتہ اگر ان میں پے درپے کی نیّت کی تو پے درپے رکھنا واجب ہوگا، ورنہ اختیار ہے کہ ایک ساتھ رکھے یا ناغہ دے کر اور متفرق کی نیت کی اور پے درپے رکھ لیے جب بھی جائز ہے۔ [14] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۳: ایک ساتھ دس ۱۰ روزوں کی منّت مانی اور پندرہ روزے رکھے، بیچ میں ایک دن افطار کیا اور یہ یاد نہیں کہ کون سے دن روزہ نہ تھا تو لگاتار پانچ دن اور رکھ لے۔ [15] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۴: مریض نے ایک ماہ روزہ رکھنے کی منت مانی اور صحت نہ ہوئی مر گیا تو اُس پر کچھ نہیں اور اگر ایک دن کے لیے بھی اچھا ہوگیا تھا اور روزہ نہ رکھا تو پورے مہینے بھر کے فدیہ کی وصیّت کرنا واجب ہے اور اس دن روزہ رکھ لیا جب بھی باقی دنوں کے لیے وصیّت چاہیے۔ یوہیں اگر تندرست نے منّت مانی اور مہینہ پورا ہونے سے پہلے مر گیا تو اس پر بھی وصیّت کرنا واجب ہے اور اگر رات میں منّت مانی تھی اور رات ہی میں مر گیا جب بھی وصیّت کر دینی چاہیے۔ (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۵: یہ منّت مانی کہ جس دن فلاں شخص آئے گا، اس دن اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کے لیے مجھ پر روزہ رکھنا واجب ہے تو اگر ضحوہ کبریٰ سے پیشتر آیا اور اُس نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو روزہ رکھ لے اور اگر رات میں آیا تو کچھ نہیں۔ یوہیں اگر زوال کے بعد آیا یا کھانے کے بعد آیا یا منت ماننے والی عورت تھی اور اُس دن اُسے حیض تھا تو ان صورتوں میں بھی کچھ نہیں اور اگر یہ کہا تھا کہ جس دن فلاں آئے گا، اُس دن کا اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) کے لیے مجھے ہمیشہ روزہ رکھنا ہے اورکھانا کھانے کے بعد آیا تو اُس دن کا روزہ تو نہیں، مگر آئندہ ہر ہفتہ میں اُس دن کاروزہ اُس پر واجب ہوگیا، مثلاً پیر کے دن آیا تو ہر پیر کو روزہ رکھے۔(عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۱۶: یہ منت مانی کہ جس دن فلاں آئے گا، اُس روز کا روزہ مجھ پر ہمیشہ ہے اور دوسری منت یہ مانی کہ جس دن فلاں کو صحت ہو جائے اس دن کاروزہ مجھ پرہمیشہ ہے۔ اتفاقاً جس دن وہ آیا، اُسی دن وہ اچھا بھی ہوگیا تو ہر ہفتہ میں صرف اُسی ایک دن کا روزہ رکھنا اس پر ہمیشہ واجب ہوا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۷: آدھے دن کے روزے کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں۔ (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۱۰۱۵تا ۱۰۱۹)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب السادس في النذر، ج۱، ص۲۰۸.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، مطلب في الکلام علی النذر، ج۳، ص۴۸۲. و ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب السادس في النذر، ج۱، ص۲۰۹.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' کتاب الصوم، فصل في العوارض، ج۳، ص۴۸۱ ۔ ۴۸۳، وغیرہ.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، مطلب في الکلام علی النذر، ج۳، ص۴۸۲ ۔ ۴۸۴.
[5] ۔۔۔۔۔۔ یعنی قسم۔
[6] ۔۔۔۔۔۔ ''تنویرالأبصار'' ، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۸۴.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۸۴، ۴۸۶، وغیرہ.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، مطلب في صوم الست من شوال، ج۳، ص ۴۸۶، وغیرہما.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ''البحر الرائق''، کتاب الصوم، فصل في النذر، ج۲، ص۵۱۹.
[10] ۔۔۔۔۔۔
[11] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصوم، مطلب في صوم الست من شوال، ج۳، ص ۴۸۷.
[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصوم، ج۳، ص۴۸۹.
[13] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق. ص۴۸۸.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصوم، الباب السادس في النذر، ج۱، ص۲۰۹.
[15] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
Comments