دوزخ کا بیان

دوزخ کا بیان

یہ ایک مکان ہے کہ اُس قہار و جبار کے جلال و قہر کا مظہر ہے۔ جس طرح اُس کی رحمت و نعمت کی انتہا نہیں کہ انسانی خیالات و تصورات جہاں تک پہنچیں وہ ایک شَمّہ [1] ہے اُس کی بے شمار نعمتوں سے، اسی طرح اس کے غضب و قہر کی کوئی حد نہیں کہ ہر وہ تکلیف و اذیت کہ اِدراک کی[2] جائے، ایک ادنیٰ حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا۔ قرآنِ مجید و احادیث میں جو اُس کی سختیاں مذکور ہیں ، ان میں سے کچھ اِجمالاً بیان کرتا ہوں ، کہ مسلمان دیکھیں اور اس سے پناہ مانگیں اور اُن اعمال سے بچیں جن کی جزا جہنم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو بندہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے، جہنم کہتا ہے: اے رب! یہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے، تُو اس کو پناہ دے۔[3] قرآن مجید میں بکثرت ارشاد ہوا کہ جہنم سے بچو! دوزخ سے ڈرو! [4] ہمارے آقا و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَہم کو سکھانے کے لیے کثرت کے ساتھ اُس سے پناہ مانگتے۔ [5]

جہنم کے شرارے (پھول) [6] اُونچے اُونچے محلوں کی برابر اُڑیں گے، گویا زَرد اُونٹوں کی قطار کہ پیہم آتے رہیں گے۔ [7]

آدمی اور پتھر اُس کا ایندھن ہے[8]، یہ جو دنیا کی آگ ہے اُس آگ کے ستّر جُزوں میں سے ایک جُز ہے۔ [9] جس کو سب سے کم درجہ کا عذاب ہوگا، اسے آگ کی جوتیاں پہنا دی جائیں گی، جس سے اُس کا دماغ ایسا کَھولے گا جیسے تانبے کی پتیلی کَھولتی ہے، وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس پر ہو رہا ہے، حالانکہ اس پر سب سے ہلکا ہے[10]، سب سے ہلکے درجہ کا جس پر عذاب ہوگا، اس سے اﷲ عَزَّوَجَلَّ پوچھے گا: کہ اگرساری زمین تیری ہو جائے تو کیا اس عذاب سے بچنے کے لیے تو سب فدیہ [11] میں دیدے گا؟ عرض کرے گا: ہاں ! فرمائے گا: کہ جب تُو پُشتِ آدم میں تھا تو ہم نے اِس سے بہت آسان چیز کا حکم دیا تھا کہ کفر نہ کرنا مگر تُو نے نہ مانا۔[12] جہنم کی آگ ہزار برس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سیاہ ہو گئی، تو اب وہ نِری سیاہ ہے [13]، جس میں روشنی کا نام نہیں ۔[14] جبرئیل عَلَیْہِ السَّلاَم نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے قسم کھا کر عرض کی: کہ اگر جہنم سے سوئی کے ناکے کی برابر کھول دیا جائے تو تمام زمین والے سب کے سب اس کی گرمی سے مر جائیں اور قسم کھا کر کہا : کہ اگر جہنم کا کوئی داروغہ [15] اہلِ دنیا پر ظاہر ہو تو زمین کے رہنے والے کُل کے کُل اس کی ہَیبت سے مر جائیں اور بقسم بیان کیا: کہ اگر جہنمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی دنیا کے پہاڑوں پررکھ دی جائے تو کانپنے لگیں اور انہیں قرار نہ ہو، یہاں تک کہ نیچے کی زمین تک دھنس جائیں ۔[16] یہ دنیا کی آگ (جس کی گرمی اور تیزی سے کون واقف نہیں کہ بعض موسم میں تو اس کے قریب جانا شاق ہوتا ہے، پھر بھی یہ آگ) خدا سے دعا کرتی ہے کہ اسے جہنم میں پھر نہ لے جائے [17] ، مگر تعجب ہے انسان سے کہ جہنم میں جانے کا کام کرتا ہے اور اُس آگ سے نہیں ڈرتا جس سے آگ بھی ڈرتی اور پناہ مانگتی ہے۔

دوزخ کی گہرائی کو خدا ہی جانے کہ کتنی گہری ہے، حدیث میں ہے کہ اگر پتھر کی چٹان جہنم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہ تک نہ پہنچے گی [18] اور اگر انسان کے سر برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کو پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانسو[19] برس کی راہ ہے۔[20] پھر اُس میں مختلف طبقات و وَادی اور کوئیں ہیں[21] ، بعض وادی ایسی ہیں کہ جہنم بھی ہر روز ستّر مرتبہ یا زیادہ اُن سے پناہ مانگتا ہے[22] ، یہ خود اس مکان کی حالت ہے، اگر اس میں اور کچھ عذاب نہ ہوتا تو یہی کیا کم تھا! مگر کفّار کی سَرْزَنِش کے لیے اور طرح طرح کے عذاب مہیّا کیے، لوہے کے ایسے بھاری گُرزوں سے فرشتے ماریں گے کہ اگر کوئی گُرز زمین پر رکھ دیا جائے تو تمام جن و انس جمع ہو کر اُس کو اُٹھا نہیں سکتے۔[23] بُختی اونٹ [24]؎ کی

گردن برابر بچھو اور اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) جانے کس قدر بڑے سانپ کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں تو اس کی سوزش، درد، بے چینی ہزار برس تک رہے[25] ، تیل کی جلی ہوئی تلچھٹ [26] کی مثل سخت کَھولتا پانی پینے کو دیا جائے گا، کہ مونھ کے قریب ہوتے ہی اس کی تیزی سے چہرے کی کھال گر جائے گی۔[27] سر پر گرم پانی بہایا جائے گا۔[28]

جہنمیوں کے بدن سے جو پیپ بہے گی وہ پلائی جائے گی[29] ، خاردار تُھوہڑ[30] کھانے کو دیا جائے گا [31] ، وہ ایسا ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا میں آئے تو اس کی سوزش و بدبُو تمام اہلِ دنیا کی معیشت برباد کردے [32] اور وہ گلے میں جا کر پھندا ڈالے گا[33] ، اس کے اتارنے کے لیے پانی مانگیں گے، اُن کو وہ کُھولتا پانی دیا جائے گا کہ مونھ کے قریب آتے ہی مونھ کی ساری کھال گل کر اس میں گِر پڑے گی، اور پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا [34] اور وہ شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی [35] ، پیاس اس بلا کی ہوگی کہ اس پانی پر ایسے گریں گے جیسے تونس [36] کے مارے ہوئے اونٹ[37] ، پھر کفّار جان سے عاجز آکرباہم مشورہ کر کے مالک عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم داروغۂ جہنم [38] کو پکاریں گے: کہ اے مالک (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم)! تیرا رب ہمارا قصہ تمام کر دے، مالک عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم ہزار برس تک جواب نہ دیں گے، ہزار برس کے بعد فرمائیں گے: مجھ سے کیا کہتے ہو،

اُس سے کہو جس کی نافرمانی کی ہے!، ہزار برس تک رب العزت کو اُس کی رحمت کے ناموں سے پکاریں گے، وہ ہزار برس تک جواب نہ دے گا، اس کے بعد فرمائے گا تویہ فرمائے گا: ’’دُور ہوجاؤ! جہنم میں پڑے رہو! مجھ سے بات نہ کرو!‘‘ اُس وقت کفّار ہر قسم کی خیر سے نا اُمید ہو جائیں گے [39] اور گدھے کی آواز کی طرح چلّا کر روئیں گے[40] ، ابتدائً آنسو نکلے گا، جب آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون روئیں گے، روتے روتے گالوں میں خندقوں کی مثل گڑھے پڑ جائیں گے، رونے کا خون اور پیپ اس قدر ہو گا کہ اگر اس میں کشتیاں ڈالی جائیں تو چلنے لگیں ۔ [41]

جہنمیوں کی شکلیں ایسی کرِیہ ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بدبُو کی وجہ سے مر جائیں ۔[42] اور جسم ان کا ایسا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک شانہ سے دوسرے تک تیز سوار کے لیے تین ۳دن کی راہ ہے۔[43] ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی [44] ، کھال کی موٹائی بیالیس ذراع [45] کی ہوگی [46] ، زبان ایک کوس [47] دو کوس تک مونھ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے [48] ، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکہ سے مدینہ تک [49] اور وہ جہنم میں مونھ سکوڑے ہوں گے کہ اوپر کا ہونٹ سمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔ [50]

ان مضامین سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ کفّار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہ ہوگی کہ یہ شکل اَحسنِ تقویم [51] ہے [52] اور یہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کو محبوب ہے، کہ اُس کے محبوب کی شکل سے مشابہ ہے، بلکہ جہنمیوں کا وہ حُلیہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، پھر آخر میں کفّار کے لیے یہ ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل [53] لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا[54] ، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لیے عذاب ہے۔

جب سب جنتی جنت میں داخل ہولیں گے اور جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لیے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی [55] جنت والوں کو پکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے: ہاں ! یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا: اے اہلِ جنت! ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اہلِ نار! ہمیشگی ہے، اب موت نہیں ، اس وقت اُن کے لیے خوشی پر خوشی ہے اور اِن کے لیے غم بالائے غم۔ [56]

نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔(بہار ِشریعت،حصہ اول،جلد۱،صفحہ۱۶۳تا۱۷۱)


[1] قلیل مقدار۔

[2] سوچی یا سمجھی۔

[3] عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((مااستجارعبد من النار سبع مرات في یوم إلاّ قالت النار: یاربّ إنّ عبدک فلانا قد استجارک مني فأجرہ۔۔۔إلخ))۔’’مسند أبي یعلی‘‘، الحدیث: ۶۱۶۴، ج۵، ص۳۷۹۔

[4] { فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(۲۴)}، پ۱، البقرۃ: ۲۴۔

{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ }، پ۲۸، التحریم: ۶۔

[5] عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((أنّہ کان یتعوّذ من عذاب القبر وعذاب جہنم۔۔۔إلخ))۔

وفي روایۃ: عن ابن عباس أنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلّمہم ہذا الدعاء کما یعلمہم السورۃ من القرآن، یقول: ((قولوا: اللّہم إنّا نعوذ بک من عذاب جہنم وأعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال وأعوذ بک من فتنۃ المحیا والممات))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب المساجد، باب ما یستعاذ منہ في الصلاۃ، الحدیث: ۱۳۳ (۵۸۸۔۵۹۰)، ص۲۹۸۔

[6] چنگاریاں ۔

[7] { اِنَّهَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِۚ(۳۲) كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌؕ(۳۳){پ۲۹، المرسلٰت: ۳۲ ۔ ۳۳۔

عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ:{ اِنَّهَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِۚ(۳۲)}، قال: أما إنّي لست أقول کالشجرۃ ولکن کالحصون والمدائن)۔ ’’الترغیب والترہیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في ظلمتہا وسوادہا وشررہا، الحدیث: ۳۱، ص۲۵۲۔

[8] { فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(۲۴)}، پ۱، البقرۃ: ۲۴۔

{ٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ } ، پ ۲۸، التحریم: ۶۔

[9] عن أبي ھریرۃ أنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((نارکم ھذہ ۔التي یوقد ابن آدم۔ جزء من سبعین جزء اً من حر جھنم))۔ ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب في شدۃ حر نار جہنم۔۔۔إلخ، الحدیث: ۲۸۴۳، ص۱۵۲۳۔

[10] عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ أھون أھل النار عذاباً مَن لہ نعلان وشِرَاکانِ من نار، یغلي منھما دماغہ کما یغلي المرجل، ما یری أنّ أحداً أشد منہ عذاباً، وإنّہ لأھونھم عذاباً))۔

’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الإیمان، باب أہون أہل النار عذاباً، الحدیث:۳۶۴(۲۱۲)، ص۱۳۴۔

[11] وہ مال یا روپیہ، جسے دے کر قیدی رِہا ہو۔ ’’فیروز اللغات‘‘، ص۹۸۲۔

[12] عن أنس یرفعہ: ((أنّ اللّٰہ تعالی یقول لِأھونِ أھل النار عذاباً: لو أنّ لک ما في الأرض من شيء کنتَ تفتدي بہ؟ قال: نعم، قال: فقد سألتک ما ھو أھون من ھذا وأنت في صلب آدم، أن لا تشرک بي فأبیتَ إلاّ الشرک))۔

’’صحیح البخاري‘‘، کتاب أحادیث الأ نبیاء، باب خلق آدم صلوات اللّٰہ علیہ وذرّیتہ، الحدیث:۳۳۳۴، ج۲، ص ۴۱۳۔

[13] عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((أوقد علی النار ألف سنۃ حتی احمرت، ثم أوقد علیھا ألف سنۃ حتی ابیضت، ثم أوقد علیھا ألف سنۃ حتی اسودت، فھي سوداء مظلمۃ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، الحدیث: ۲۶۰۰، ج۴، ص۲۶۶۔

وفي روایۃ: عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((أوقد علی النار ألف سنۃ حتی احمرّت، ثم أوقد علیہا ألف سنۃ حتی ابیضّت، ثم أوقد علیہا ألف سنۃ حتی اسودت، فہي سوداء کاللیل المظلم))۔

’’الترغیب والترہیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في ظلمتہا وسوادہا وشررہا، الحدیث: ۲۸، ص۲۵۱۔

[14] عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: تلا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہذہ الآیۃ: { وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ}، فقال: ((أوقد علیہا ألف عام حتی احمرت، وألف عام حتی ابیضت، وألف عام حتی اسودت، فہي سوداء مظلمۃ لا یضيء لہبہا))۔

وفي روایۃ: ((لا یطفأ لہبہا))۔ ’’الترغیب والترہیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في ظلمتہا وسوادہا وشررہا، الحدیث:۳۰، ص۲۵۱۔۲۵۲۔

[15] یعنی محافظ و نگران۔

[16] عن عمر بن الخطاب قال: جاء جبریل إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حین غیر حینہ الذي کان یأتیہ فیہ، فقام إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ((یا جبریل ما لي أراک متغیر اللون؟ فقال:۔۔۔۔۔۔والذي بعثک بالحق لو أنّ قدر ثقب إبرۃ فتح من جھنم لمات من في الأرض کلّھم جمیعاً من حرّہ۔۔۔۔۔۔ والذي بعثک بالحق لو أنّ خازناً من خزنۃ جھنم برز إلی أھل الدنیا فنظروا إلیہ لمات من في الأرض کلّھم من قبح وجھہ ومن نتن ریحہ، والذي بعثک بالحق لو أنّ حلقۃ من حلقۃ سلسلۃ أھل النار التي نعت اللّٰہ في کتابہ وضعت علی جبال الدنیا لارفضّت وما تقارّت حتی تنتھي إلی الأرض السفلی))، ملتقطاً۔’’مجمع الزوائد‘‘، کتاب صفۃ النار، الحدیث: ۱۸۵۷۳، ج۱۰، ص۷۰۶۔۷۰۷۔ ’’المعجم الأوسط‘‘ للطبراني، ج۲، ص۷۸، الحدیث:۲۵۸۳۔

[17] عن أنس بن مالک قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ نارکم ھذہ جزء من سبعین جزء اً من نارجھنم، ولولا أنّھا أطفئت بالماء مرتین ما انتفعتم بھا، وإنّھا لتدعو اللّٰہ عزوجل أن لا یعیدھا فیھا))۔

’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب الزھد، باب صفۃ النار، الحدیث:۴۳۱۸، ج۴، ص۵۲۸۔

[18] عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ الصخرۃ العظیمۃ لتلقی من شفیر جھنم فتھوي فیھا سبعین عاما وما تفضي إلی قرارہا))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في صفۃ قعرجھنم، الحدیث: ۲۵۸۴، ج۴، ص۲۶۰۔

[19] یعنی پانچ سو ۔

[20] عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لوأنّ رصاصۃً مثل ھذہ ۔وأشار إلی مثل الجُمجُمۃ۔ أرسلت من السماء إلی الأرض وھي مسیرۃ خمسمائۃ سنۃ لبلغت الأرض قبل اللیل۔۔۔إلخ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب منہ، الحدیث: ۲۵۹۷، ج۴، ص۲۶۵۔

[21] کان من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قدمائہم قال: ((إنّ في جہنم سبعین ألف واد، في کلّ واد سبعون ألف شعب، في کل شعب سبعون ألف دار، فيکل دار سبعون ألف بیت، في کل بیت سبعون ألف بئر۔۔۔ إلخ))۔

’’الترغیب والترہیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في أودیتہا وجبالہا، الحدیث: ۴۰، ج۴، ص۲۵۴۔

[22] عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((۔۔۔ وادٍ في جھنم تتعوذ منہ جھنم کلّ یوم سبعین مرۃ۔۔۔إلخ))۔’’البعث والنشور‘‘ للبیہقي، الحدیث: ۴۶۴، ج۱، ص۴۹۸۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، الترھیب من النار۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۳۷، ج۴، ص۲۵۳۔وفي روایۃ: عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((۔۔۔وادٍ في جہنم یتعوّذ منہ جہنّم کل یوم أربعمائۃ مرۃ۔۔۔إلخ))۔ ’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل، الحدیث: ۲۵۶، ج۱، ص۱۶۷۔ وفي روایۃ: ’’المعجم الکبیر‘‘ للطبراني، عن ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ في جہنم لوادیاً یستعیذ جہنم من ذلک الوادي فيکل یوم أربعمائۃ مرۃ))۔ الحدیث: ۱۲۸۰۳، ج۱۲، ص۱۳۶۔

[23] عن أبي سعید خدري رضي اللّٰہ تعالی عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنّہ قال: ((لو أنّ مقمعاً من حدید وضع في الأرض، فاجتمع لہ الثقلان ما أقلّوہ من الأرض))۔ ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۲۳۳، ج۴، ص۵۸۔

[24] ؎ ایک قسم کے اونٹ ہیں ، جو سب اونٹوں سے بڑے ہوتے ہیں ۔

[25] لم نَفُز بتخریج عبارۃ المتن ولکن وجدنا الحدیث في ’’المسند‘‘ للإمام أحمد: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ في النار حیّات کأمثال أعناق البخت تلسع إحداہنّ اللسعۃ فیجد حموتہا أربعین خریفاً، وإنّ في النار عقارب کأمثال البغال الموکفۃ تلسع إحداہنّ اللسعۃ فیجد حموتہا أربعین سنۃ))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث:۱۷۷۲۹، ج۶، ص۲۱۷۔

[26] جلی ہوئی تہ۔

[27] { وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-}، پ۱۵، الکہف: ۲۹۔

في روایۃ ’’سنن الترمذي‘‘ عن أبي سعید عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قولہ: { كَالْمُهْلِ }، قال: ((کعکر الزیت، فإذا قرّبہ إلی وجہہ سقطت فروۃُ وجہہ فیہ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء في صفۃ شراب أہل النار، الحدیث: ۲۵۹۰، ج۴، ص۲۶۱۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۱۱۶۷۲، ج۴، ص۱۴۱۔

[28] { یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ(۱۹)} پ ۱۷، الحج:۱۹۔

في ’’تفسیر الطبري‘‘، ج۹، ص۱۲۵: عن أبي ہریرۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: ((إنّ الحمیم لیُصبّ علی رؤوسھم))۔ و’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في صفۃ شراب، الحدیث:۲۵۹۱، ج۴، ص۲۶۲۔

[29] { وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍۙ(۱۶)}، پ۱۳، ابراھیم : ۱۶۔

في ’’الدر المنثور‘‘، ج۵، ص۱۵، تحت الآیۃ، عن قتادۃ رضي اللّٰہ عنہ في قولہ: { وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍۙ(۱۶)}، قال:(ماء یسیل من بین لحمہ وجلدہ

[30] ایک قسم کا خار دار زہریلا درخت جس میں سے دودھ نکلتا ہے۔ ’’فرہنگ آصفیہ‘‘، ج۱، ص۶۴۸۔

[31] { اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِۙ(۴۳) طَعَامُ الْاَثِیْمِ ﳝ (۴۴)}، پ۲۵، الدخان: ۴۳ ۔ ۴۴۔

{ وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ } پ۲۹، المزمل:۱۳۔ في ’’تفسیر الطبري‘‘، تحت ہذہ الآیۃ، عن مجاہد قولہ: { وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ }، قال: (شجرۃ الزقوم ج۱۲، ص۲۸۹۔

[32] قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((لو أنّ قطرۃ من الزقوم قطرت في دار الدنیا لأفسدت علی أھل الدنیا معایشھم، فکیف بمن یکون طعامہ))۔ ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم ، باب ماجاء في صفۃ شراب أھل النار، الحدیث: ۲۵۹۴، ج۴، ص۲۶۳۔

[33] في’’تفسیر الطبري‘‘، ج۱۲، ص۲۸۹: عن ابن عباس، في قولہ: { وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ }قال: (شوک یأخذ بالحلق، فلا یدخل ولا یخرج

[34] { وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ- بِئْسَ الشَّرَابُؕ-}، پ۱۵، الکہف:۲۹۔

عن أبي الدرداء قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((یلقی علی أھل النار الجوع، فیعدل ما ھم فیہ من العذاب، فیستغیثون فیغاثون بطعام من ضریع، لا یسمن ولا یغني من جوع، فیستغیثون بالطعام فیغاثون بطعام ذي غصۃ، فیذکرون أنّھم کانوا یجیزون الغصص في الدنیا بالشّراب فیستغیثون بالشراب، فیدفع إلیھم الحمیم بکلالیب الحدید، فإذا دنت من وجوھھم شوّت وجوھھم، فإذا دخلت بطونھم قطّعت ما في بطونھم۔۔۔إلخ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ماجاء في صفۃ طعام أھل النار، الحدیث:۲۵۹۵، ج۴، ص۲۶۴۔

[35] في’’تفسیر الطبري‘‘ پ۱۳، ابراہیم:۱۶۔۱۷، ج۷، ص۴۳۰، عن أبي أمامۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قولہ: { وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍۙ(۱۶) یَّتَجَرَّعُهٗ }، فإذا شَربہ قَطَّع أمعاء َہ حتی یخرج من دُبُرہ، یقول اللّٰہ عز وجل:{ وَ سُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ(۱۵)}، ویقول: { وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ- بِئْسَ الشَّرَابُؕ-}۔

[36] یعنی انتہائی شدید پیاس۔

[37] عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في قولہ: ({شُرْبَ الْهِیْمِؕ(۵۵)}، قال: کشرب الإبل العطاش

وفي روایۃ: عن مجاہد في قولہ تعالی: ({شُرْبَ الْهِیْمِؕ(۵۵)}، قال: شرب الہیم ہو داء یکون في الإبل تشرب ولا تروی ’’البدورالسافرۃ‘‘للسیوطي، باب طعام أہل النار وشرابہم، الحدیث:۱۴۴۶، ص۴۲۸۔

[38] جہنم کے محافظ۔

[39] فیقولون: ادعوا مالکاً، فیقولون: { یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَؕ-}، قال: فیجیبھم { اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ(۷۷)} [الزخرف:۷۷] قال الأعمش: نُبّئتُ أنّ بین دعائھم وبین إجابۃ مالک إیاھم ألف عام، قال: فیقولون: ادعوا ربکم فلا أحد خیر من ربکم، فیقولون: { رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(۱۰۶)رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(۱۰۷)} قال: فیجیبھم { اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ(۱۰۸)} [المؤمنون: ۱۰۶۔۱۰۸] قال: فعند ذلک یئسوا من کل خیر

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في صفۃ طعام أھل النار، الحدیث:۲۵۹۵، ج۴، ص۲۶۴۔

[40] قال: (فواللّٰہ ما نبس القوم بعدھا بکلمۃ وما ھو إلاّ الزفیر والشھیق في نار جھنم، فشبہ أصوا تھم بأصوات الحمیر أوّلھا زفیر وآخرھا شھیق ’’شرح السنۃ‘‘، کتاب الفتن، باب صفۃ النار وأھلھا، الحدیث: ۴۳۱۶، ج۷، ص۵۶۵۔۵۶۶۔

[41] عن أنس بن مالک قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((یرسل البکاء علی أھل النار، فیبکون حتی ینقطع الدموع ثم یکون الدم حتی یصیر في وجوھھم کھیئۃ الأخدود لو أرسلت فیہ السفن لجرت))۔

’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب الزھد، باب صفۃ النار، الحدیث: ۴۳۲۴، ج۴، ص۵۳۱۔

[42] عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: ((لو أنّ رجلا من أھل النار أخرج إلی الدنیا لمات أھل الد نیا من وحشۃ منظرہ، ونتن ریحہ))۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، فصل في عظم أہل النار۔۔۔إلخ، الحدیث: ۶۸، ج۴، ص۲۶۳۔

[43] عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((مابین منکبي الکافر مسیرۃ ثلا ثۃ أیام للراکب المسرع))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، الحدیث: ۶۵۵۱، ج۴، ص۲۶۰۔

[44] عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((ضرس الکافر مثل أحد))۔

’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، الحدیث: ۸۴۱۸، ج۳، ص۲۳۱۔

[45] یعنی بیالیس ہاتھ۔

[46] عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ((إنّ غلظ جلد الکافر اثنان وأربعین ذراعا))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في عظم أہل النار، الحدیث:۲۵۸۶، ج۴، ص۲۶۰۔

[47] یعنی راستہ کی حد ِ معین کا نام جس کی مقدار بعض کے نزدیک چار ہزار گز اور بعض کے نزدیک تین ہزار گزہے۔ ’’فرھنگ آصفیہ‘‘، ج۳، ص۵۹۰۔

[48] عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ((إنّ الکافر لیسحب لسانہ الفرسخ والفرسخین یتوطّأہ الناس))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في عظم أہل النار، الحدیث: ۲۵۸۹، ج۴، ص۲۶۱۔

[49] ((وإنّ مجلسہ من جھنم کما بین مکۃ والمدینۃ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في عظم أہل النار، الحدیث: ۲۵۸۶، ج۴، ص۲۶۰۔

[50] عن أبي سعید الخدري عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: (({وَ هُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ(۱۰۴)} [المؤمنون:۱۰۴] قال: تشویہ النار فتقلّص شفتُہ العلیا حتی تبلغ وسط رأسہ وتسترخي شفتُہ السفلی حتی تضرب سرّتہ))۔

’’سنن الترمذي‘‘، کتاب صفۃ جھنم، باب ما جاء في صفۃ الطعام أہل النار، الحدیث: ۲۵۹۶، ج۴، ص۲۶۴۔

[51] اچھی صورت۔

[52] { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴)} پ۳۰، التین: ۴۔ ’’بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا ‘‘۔ (ترجمۂ’’ کنز الایمان‘‘)۔

[53] تالا۔

[54] عن سوید بن غفلۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: ((إذا أراد اللّٰہ أن یُنسی أھل النار جعل للرجل منھم صندوقا علی قدرہ من نار

لا ینبض منہ عِرق إلاّ فیہ مسمار من نار، ثم تضرم فیہ النار، ثم یقفل بقفل من نار، ثم یجعل ذلک الصندوق في صندوق من نار، ثم یضرم بینھما نار، ثم یقفل بقفل من نار، ثم یجعل ذلک الصندوق في صندوق من نار، ثم یضرم بینھما نار ثم یقفل، ثم یلقی أو یطرح في النار فذلک قولہ: { مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَ مِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌؕ-ذٰلِكَ یُخَوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗؕ-یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ(۱۶)} [الزمر:۱۶] وذلک قولہ: { لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ(۱۰۰)}[الأنبیاء :۱۰۰] قال: فما یری أنّ في النار أحداً غیرہ))۔ ’’البعث والنشور‘‘ للبیہقي، ج۲، ص۶۱، الحدیث: ۵۲۴۔ ’’الترغیب والترھیب‘‘، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، الترھیب من النار أعاذنا اللّٰہ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۹۲، ج۴، ص۲۶۸۔

[55] پکارنے والا

[56] في روایۃ ’’البخاري‘‘: کتاب الرقاق: عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إذا صار أھل الجنۃ إلی الجنۃ وأھل النار إلی النار جيء بالموت حتی یجعل بین الجنۃ والنار ، وفي روایۃ ’’البخاري‘‘: کتاب التفسیر: یؤتی بالموت کہیئۃ کبش أملح، فینادي مناد: یا أھل الجنۃ،… وفي روایۃ ’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب الزھد،… یا أھل الجنۃ فیطّلعون خائفین وجِلین أن یخرجوا من مکانھم الذي ھم فیہ، ثم یقال: یا أھل النار فیطّلعون مستبشرین فرحین أن یخرجوا من مکانھم الذي ھم فیہ، فیقال: ھل تعرفون ھذا؟ قالوا: نعم، ھذا الموت وفي روایۃ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التفسیر، فیذبح، ثم یقول: یا أہل الجنۃ خلود فلا موت، ویا أہل النار خلود فلا موت وفي روایۃ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الرقاق: فیزداد أہل الجنۃ فرحاً إلی فرحہم، ویزداد أہل النار حزناً إلی حزنہم))۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، ج۴، ص۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۸۔ ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب التفسیر، ج۳، ص۲۷۱، الحدیث: ۴۷۳۰۔ و’’سنن ابن ماجہ‘‘، کتاب الزھد، باب صفۃ النار، الحدیث: ۴۳۲۷، ج۴، ص۵۳۲

Share