47 باطِنِی مُہْلِکَات کی تعریفات
’’ریاء‘‘کے لغوی معنی ’’دکھاوے‘‘ کے ہیں۔’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرناریاکاری کہلاتا ہے۔‘‘ گویا عبادت سے یہ غَرَض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں۔(نیکی کی دعوت‘‘ص۶۶)
(2)عجب یعنی خود پسندی کی تعریف:
اپنے کمال (مثلاً عِلم یا عمل یا مال) کو اپنی طرف نسبت کرنااور اس بات کا خوف نہ ہونا کہ یہ چِھن جائے گا۔گویا خود پسند شخص نعمت کو مُنْعِمِ حقیقی (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ) کی طرف منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔ (یعنی ملی ہوئی نعمت مثلاً صِحّت یاحسن و جمال یا دولت یا ذِہانت یا خوش الحانی یا منصب وغیرہ کو اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھنا اوریہ بھول جانا کہ سب ربُّ العزّت ہی کی عنایت ہے۔)(احیاء العلوم، ج ۳، ص، ۴۵۴،شیطان کے بعض ہتھیار، ص۱۷ )
کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ ،ج۱ ،ص۶۰۰)
کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی وبغض رکھے، نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔(احیاء العلوم، ج۳، ص۲۲۳)
کسی کام پر لوگوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف کو پسند کرنا یا اس بات کی خواہش کرنا کہ فلاں کام پر لوگ میری تعریف کریں ، مجھے عزت دیں حُبِّ مَدَح کہلاتا ہے۔
’’ شہرت و عزّت کی خواہش کرنا۔ ‘‘ حب جاہ کہلاتا ہے۔(نیکی کی دعوت، ص۸۷)
دنیا کی وہ محبت جو اُخروی نقصان کا باعث ہو(قابل مذمت اور بری ہے)۔ (احیاء علوم الدین، ج۳، ص۲۴۹)
اپنی شہرت کی کوشش کرنا طلب شہرت کہلاتا ہے۔‘‘یعنی ایسے افعال کرنا کہ مشہور ہوجاؤں۔(مراۃ المناجیح، ج۷، ص۲۶ ماخوذا)
امیروکبیر لوگوں کی وہ تعظیم جو محض ان کی دولت وامارت کی وجہ سے ہو تعظیم اُمراء کہلاتی ہے جو قابل مذمت ہے۔
غریبوں اور مسکینوں کی وہ تحقیر ہے جو ان کی غربت یا مسکینی کی وجہ سے ہو تحقیر مساکین کہلاتی ہے۔
جائز و ناجائز کی پر واہ کیے بغیر نفس کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگ جانا اتباعِ شہوات کہلاتا ہے۔
مُدَاہَنَتْ کے لغوی معنی نرمی کے ہیں۔ناجائزاورگناہ والے کام ملاحظہ کرنے کے بعد(اسےروکنے پر قادر ہونے کےباوجود ) اسے نہ روکنا اور دینی معاملے کی مدد ونصرت میں کمزوری و کم ہمتی کا مظاہرہ کرنا مداہنت کہلاتا ہے یا کسی بھی دنیوی مفاد کی خاطردینی معاملے میں نرمی یا خاموشی اختیار کرنامداہنت ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج۲، ص۱۵۴، حاشیۃ الصاوی علی الجلالین، پ۱۲، ھود، تحت الایۃ: ۱۱۳، ج۳، ص۹۳۶)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادانہ کرنا اور اُن سے غفلت برتنا کفرانِ نعم کہلاتاہے ۔(الحدیقۃ الندیۃ،، ج۲، ص۱۰۰)
خواہشات کی زیادتی کے اِرادے کا نام حرص ہے اوربُری حرص یہ ہے کہ اپنا حصہ حاصل کرلینے کے باوجود دوسرے کے حصے کی لالچ رکھے ۔ یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص ،اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔(مرقاۃ، ج۹، ص۱۱۹، مراۃ المناجیح ،ج۷،ص۸۶مفصلاً)
بخل کے لغوی معنی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہووہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج۲، ص۲۷، مفردات الفاظ القران، ۱۰۹)
’’طولِ اَمل‘‘ کا لغوی معنی لمبی لمبی امیدیں باندھنا ہے۔اور جن چیزوں کا حصول بہت مشکل ہواان کے لئےلمبی امیدیں باندھ کر زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرنا طولِ اَمل کہلاتا ہے۔(فیض القدیر، ج۱،ص۲۷۷، تحت الحدیث: ۲۹۴)
(17)سوء ظن یعنی بدگمانی کی تعریف:
بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقاد جازم (یعنی یقین) کرنا۔ (شیطان کے بعض ہتھیار، ص۳۲)
کسی (دینی)بات کودرست جاننے کے باوجود ہٹ دھرمی کی بناء پر اس کی مخالفت کرنا عنادِ حق کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،ج۲،ص۱۶۲)
نصیحت قبول نہ کرنا، اہل حق سے بغض رکھنا اورناحق یعنی باطل اور غلط بات پر ڈٹ کر اہل حق کو اذیت دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دینا اِصرار ِباطل کہلاتاہے۔(الحدیقۃالندیۃ، ج۲، ص۱۶۴ ملتقطاً)
وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا باطنی اِرادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو مکر کہلاتا ہے۔(فیض القدیر، ج۶، ص۳۵۸)
معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بدعہدی کہلاتاہے۔ (فیض القدیر، ج۲،ص۶۲۵)
اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتاہے۔(عمدۃ القاري، ج۱، ص۳۲۸)
یہاں دینی اُمور میں غفلت مراد ہے یعنی وہ بھول ہے جو انسان پر بیدار مغزی اوراحتیاط کی کمی کے باعث طاری ہوتی ہے۔(مفردات الفاظ القرآن، ص۶۰۹)
(24)قسوت یعنی دل کی سختی کی تعریف:
موت و آخرت کو یاد نہ کرنے کے سبب دل کا سخت ہو جانا یا دل کا اس قدر سخت ہوجانا کہ استطاعت کےباوجود کسی مجبور شرعی کو بھی کھانا نہ کھلائے قسوتِ قلبی کہلاتاہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،ج۲،ص۴۸۴)
کسی چیز میں حد ردرجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (مفردات الفاظ القرآن ،ص۵۲۴)
اپنے سے بلند رتبہ شخصیت یا صاحب منصب کے سامنے محض مفاد حاصل کرنے کے لیےعاجزی وانکساری کرنا یا اپنے آپ کو نیچا دکھانا تملق یعنی چاپلوسی کہلاتا ہے۔(بریقۃ محمودیۃ ،ج۲،ص۲۳۵)
مُسَبِّبُ الْاَسْبَابْ یعنی اسباب کو پیدا کرنے والے’’ ربّ عَزَّوَجَلَّکو چھوڑ کر فقط ’’اسباب‘‘ پر بھروسہ کرلینا یا خالق عَزَّوَجَلَّکو چھو ڑ کر فقط مخلوق پر بھروسہ کرلینا اعتمادِ خلق کہلاتا ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کردینااور حقوق اللہ کو یکسر فراموش کردینا ’’نسیانِ خالق ‘‘ کہلاتا ہے۔(تفسیر الطبری،ج۱۲،ص۵۰،روح المعانی،ج۲۸، ص۳۵۴)
دنیوی مال ودولت کی محبت وگناہوں میں غرق ہوکر موت کو یکسر فراموش کردینا نسیانِ موت کہلاتا ہے۔
(30)جرأت علی اللہ کی تعریف:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سر کشی و قصداً نافرمانی کرنا یعنی جن کاموں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں نہ کرنا اور جس سے منع فرمایا ہے ان سے اپنے آپ کو نہ بچانا جرأت علی اللہ کہلاتا ہے۔
زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنا اور دل میں اسلام سے انکار کرنا نفاقِ اعتقادی اور زبان و دل کا یکساں نہ ہونا نفاقِ عملی کہلاتاہے۔(بہار شریعت،ج۱،ص۱۸۲)
شیطان کے وساوس وشبہات کےمطابق چلنا اِتباعِ شیطان کہلاتاہے۔(تفسیر خزائن العرفان ،پ۲،البقرۃ، تحت الایہ:۲۰۸)
جائز و ناجائز کی پرواکیے بغیر نفس کا ہر حکم مان لینا بندگی نفس کہلاتا ہے۔
ناجائز وحرام کاموں کی جانب دلچسپی رکھنا رغبت بطالت ہے ۔
نیک اور اچھے اعمال کو ناپسند کرنا کراہت عمل کہلاتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالی کے خوف میں کمی کو قلت خشیت کہتے ہیں۔
پیش آنے والی کسی بھی مصیبت پر واویلا کرنا، یا اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرنا جزع کہلاتا ہے ۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج۲،ص۹۸)
بارگاہِ الٰہی میں حاضری کے وقت (یعنی نماز یا نیک کاموں میں )دل کا نہ لگنا عدم خشوع کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،ج۲،ص۱۱۷مفھوما)
(39)غضب للنفس کی تعریف:
اپنے آپ کو تکلیف سے دور کرنے یا تکلیف ملنے کے بعد اس کا بدلہ لینے کے لیے خون کا جوش مارنا ’’غضب‘‘ کہلاتا ہے۔اپنے ذاتی انتقام کے لیے غصہ کرنا ’’غضب للنفس‘‘ کہلاتا ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج۱، ص۶۳۵ ماخوذا)
(40)تساھل فی اللہ کی تعریف:
احکامِ الٰہی کی بجاآوری میں سستی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی میں مشغولیت ’’تَسَاھُلْ فِی اللہ‘‘ ہے۔
خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔(تکبر،ص ۱۶)
شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز ،شخص، عمل،آواز یا وَقْت کو اپنے حق میں اچھا یابُرا سمجھنا ۔(اسی وجہ سےبُرا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔)(بدشگونی، ص ۱۰ )
اپنے کسی بھی نسبی یا مسلمان بھائی کے نقصان یا اُس کو ملنی والی مصیبت وبلا کو دیکھ کر خوش ہونے کو شَماتت کہتے ہیں۔(الحدیقۃ الندیۃ، ج ۱، ص۶۳۱)
جس جگہ شرعاً ، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اِسراف کہلاتاہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،ج۲، ص۲۸)
کسی دنیوی چیز سے محرومی کے سبب رنج وغم اور افسوس کا اِس طرح اِظہارکرنا کہ اُس میں صبر اور قضائے اِلٰہی پر رضا اور ثواب کی اُمید باقی نہ رہے ’’غم دُنیا ‘‘کہلاتا ہےاور یہ مذموم ہے۔
لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کر ناتجسس کہلاتاہے۔ (احیاء العلوم، ج۲، ص۶۴۳، ج۳، ص۴۵۹ )
اللہ عَزَّوَجَلَّکی رحمت اور اس کےفضل واحسان سے خود کومحروم سمجھنا ’’مایوسی ‘‘ ہے۔
کب گناہوں سے کنارا میں کروں گا یارب
نیک کب اے میرے اللہ بنوں گا یارب
کب گناہوں کے مرض سے میں شفا پاؤں گا
کب میں بیمار مدینے کا بنوں گا یارب
گر تو ناراض ہوا میری ہلاکت ہوگی
ہائے میں نار جہنم میں جلوں گا یارب
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
Comments