{1}پہلے کسی ماہرگوشْتْ فروش کی نگرانی میں ذَبْح وغیرہ کا کام سیکھ لے کہ اُس ناتجرِبہ کار کیلئے یہ کام جائز نہیں جس کی وجہ سے کسی کے جانور کے گوشْتْ اور کھال وغیرہ کوعُرف و عادت(یعنی عام معمول اور دستور) سے ہٹ کر نقصان پہنچتا ہو۔
{2} ماہر گوشْتْ فروش کو بھی چاہئے کہ جلد بازی یا لا پرواہی کے سبب کھال میں عُرف و عادت سے زائدگوشْتْ نہ لگا رہنے دے ،اِسی طرح چھیچھڑے اُتارنے میں بھی احتیاط سے کام لے کہ اِس میں خوامخواہ بوٹی اور چربی نہ چلی جائے۔نیز کھائی جانے والی ہڈیاں وغیرہ بھی پھینکنے کے بجائے ٹکڑے بنا کر گوشْتْ ہی میں ڈا ل دے اور ماہرگوشْتْ فروش کوبھی عُرف وعادت سے ہٹ کر گوشْتْ یا کھال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ۔
{3} بَقَرہ عید میں عُموماً بڑے جانور کابھیجااور زَبان وغیرہ نکال کر سِری کا بقیّہ حصّہ اور پائے کے کُھر پھینک دیئے جاتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کے سِری پائے کے بھی کھائے جانے والے بعض اجزا خوامخواہ ضائِع کر دیئے جاتے ہیں ایسا نہ کیا جائے اگر خود کھانا نہیں چاہتے تو کسی غریب مسلمان کو بُلا کر احترام کے ساتھ دیجئے کہ اِس طرح کے کافی افراد ان دنوں گوشْتْ اور چربی وغیرہ کی تلاش میں پھر رہے ہوتے ہیں ۔نیز یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑے جانور کے سِری پائے مکمَّل چمڑے سمیت اصل کھال سے جدا کر لینے کی وجہ سے کھال کی قیمت میں کمی آتی ہے۔
{4} عام دنوں میں پونچھ کا گوشْتْ دوسرے گوشْتْ کے ساتھ وَزْن میں بیچا جاتا ہے جبکہ قربانی کے جانور کی پونچھ عُموماً کھال میں ہی جانے دیتے ہیں اس سے اِس کا گوشْتْ ضائِع ہو جاتا ہے، بلکہ بڑے جانور میں سے بعض اوقات کھال سمیت پونچھ کاٹ کر پھینک دیتے ہیں ، یہ طریقہ بھی غَلَط ہے، اِس طرح کرنے سے کھال کی قیمت میں بھی کمی آتی ہے۔
{5} جن ملکوں میں کھال کام میں لے لی جاتی ہے(مَثَلاً پاک و ہند میں ) وہاں عُرف سے ہٹ کر خوامخواہ ایسی جگہ’’ کَٹ ‘‘ لگادینا جائز نہیں جس سے کھال کی قیمت میں کمی آجائے ۔گوشْتْ فروشوں کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ذاتی جانور کی کھال سنبھال سنبھال کر اُدھیڑتے ہیں ،دوسروں کے مُعامَلے میں بھی اِسی طرح کریں ۔
{6}دُنبے کی چکّی کی کھال اُدھیڑنے میں اِس بات کا خیال رکھئے کہ چربی کھال میں باقی نہ رہے ۔
{7} چھیچھڑے اور چربی ایک طرف جَمْعْ کر کے آخر میں چھیچھڑوں کی آڑ میں چربی بھی اُٹھا لے جانا دھوکا اور چوری ہے۔ پوچھ کربھی نہ لیں کہ’’ سُوال‘‘ہے اور بِلاحاجتِ شَرْعی سُوال جائز نہیں ۔ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:جو شخص حاجت کے بِغیر لوگوں سے سُوال کرتا ہے وہ منہ میں انگارے ڈالنے والے کی طرح ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۲۷۱ حدیث ۳۵۱۷)
{8}بسا اوقات قربانی کے جانور میں سے بوٹی کا بہترین گول لوتھڑا چپکے سے ٹوکری میں سَرکالیا جاتا ہے یہ صاف صاف چوری ہے ۔ بِلا اجازت شَرْعی مانگ کر لینا بھی دُرُست نہیں ۔ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:’’جو مال میں اِضافے کے لئے لوگوں سے سُوال کرتا ہے وہ انگارے مانگتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ انگارے کم جَمْع کرے یا زیادہ۔‘‘(مُسلِم ص۵۱۸حدیث ۱۰۴۱)ہاں اگرلوگوں میں گوشْتْ بانٹا جا رہا ہے اورگوشْتْ فروش نے بھی لینے کیلئے ہاتھ بڑھا دیا تو حَرَج نہیں ۔
{9}گوشت کا ہروہ حصّہ جو عام دنوں میں استِعمال میں لیا جاتا ہے ، قربانی کے دنوں میں بھی کام میں لیا جائے۔پھیپھڑے اور چربی وغیرہ کے ٹکڑے کر کے گوشْتْ کے ساتھ تقسیم کر دینا مُناسب ہے، اِس طرح کی چیزوں کو پھینکا نہ جائے اگر خود کھانا یا گوشْتْ کے ساتھ تقسیم کرنا نہیں چاہتے تو یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جوضَرورت مند لینا چاہے اُسے بلاکر دے دیا جائے یا کسی کے حوالے کردیا جائے کہ کسی ضَرورت مند کو دے دے بلکہ احتیاط اسی میں ہے کہ خود ہی کسی مسلمان کے حوالے کر دیجئے۔ یہ مسئلہ یاد رہے کہ غیر مسلم بھنگیوں وغیرہ کوکھال توکیا ایک بوٹی بھی قربانی کے گوشْتْ میں سے دینا جائز نہیں ۔
{10} اگر جانور کے گلے میں رسی ، نَتھ، چمڑے کا پٹّا، گُھنگُرو، ہار وغیرہ ہے تو ان سب کو چُھری سے جُوں توں کاٹ کر نہیں بلکہ قاعدے کے مطابِق کھول کر نکال لینا چاہئے تاکہ ناپاک نہ ہو ں ۔ بِغیر نکالے ذَبح کرنے کی صورت میں یہ چیزیں خون آلود ہو جاتی ہیں اورمسئلہ یہ ہے کہ بِلاحاجت کسی پاک چیز کوقَصْداً(یعنی جان بوجھ کر) ناپاک کرنا حرام ہے۔بِالفرض ناپاک ہو بھی جائیں تب بھی ان کو پھینک نہ دیا جائے ، پاک کر کے خود استِعمال میں لائیں یا کسی مسلمان کو دیدیں۔ یاد رکھئے ! تَضیِیعِ مال( یعنی مال ضائع کرنا) حرام ہے۔
{11} چُھری پھیرنے سے قبل جانور کے گلے کی کھال نرم کرنے کیلئے اگر پاک پانی کے برتن میں ناپاک خون والا ہاتھ ڈال کر چُلّو بھرا تو چُلّو کا اور اُس برتن کا تمام پانی ناپاک ہو گیا۔ اب یہ پانی گلے پر مت ڈالئے ۔ اِس کا آسان سا حل یہ ہے کہ جن کاجانور ہے اُسی سے کہئے وہ پاک صاف پانی کا گلاس بھر کر اپنے ہاتھ سے جانور کے گلے پر ڈالئے مگریہ احتیاط کی جائے کہ گلاس سے پانی ڈالنے یا چھڑکنے کے دوران بیچ میں نہ کوئی اپنا خون آلود ہاتھ ڈالئے نہ ہی پانی والے گلے پر خون والا ہاتھ مَلے یہ بات صر ف قربانی کیلئے خاص نہیں ،جب بھی ذَبْح کریں اِس کا خیال رکھئے۔
{12} ذَبْح کے بعد خون آلود چُھری اور اُسی خون سے لِتھڑے ہوئے ہاتھ دھونے کیلئے پانی کی بالٹی میں ڈالدینے سے چُھری اور ہاتھ پاک نہیں ہوتے اُلٹا بالٹی کا سارا پانی بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اکثر اِسی طرح کے ناپاک پانی سے کھال اُدھیڑنے میں بھی مدد لی جاتی ہے اوریِہی پانی گوشت کے اندرونی حصّے میں جمع شدہ خون دھونے کیلئے بھی بہا یا جاتا ہے گوشت کے اندر کا خون پاک ہوتا ہے مگر ناپاک پانی بہانے کے سبب یہ نقصان ہوتا ہے کہ یہ ناپاک پانی جہاں جہاں سے گزرتا ہے گوشت کے پاک حصّے کو بھی ناپاک کرتا چلا جاتا ہے ۔ ایسا مت کیجئے۔
{13} اَجیرگوشت فروش کیلئے یہ ضَروری ہے کہ بَقَرہ عید کے عُرف و عادت (یعنی دستو ر ) کے مطابِق قُربانی کے گوشْتْ کی بوٹیاں بنا کر دے۔ بعض قصّاب جلد بازی کے سبب گوشْتْ کے بڑے بڑے ٹکڑے بناتے ، نلیاں بھی صحیح سے توڑ کر نہیں دیتے اور سِری پائے بھی ثابِت چھوڑ کر چل دیتے ہیں ،ایسانہ کیا کریں ۔ اِس طرح قربانی کروانے وا لے سخت آزمائش میں آجاتے ہیں اور بسا اوقات سِری پائے وغیرہ پھینکنے پڑ جاتے ہیں ۔بعض لوگ صَبر کرنے کے بجائے قصّاب کو بُرے بُرے اَلْقاب اور گالیوں سے نوازتے اور خوب گناہوں بھری باتیں کرتے ہیں ۔ہاں ، اِجارہ کرتے وَقْت قصّاب نے کہہ دیا ہو کہ سِری پائے بنا کر نہیں دوں گا تو اب ثابِت چھوڑ نے میں کوئی حرج نہیں ۔
{14}بعض قصّاب حِرص کے سبب بَہُت زیادہ جانور ’’بُک‘‘ کر لیتے ہیں اور ایک جگہ چُھری پھیر کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں ،پھر اُدھر گلا کاٹ کر پہلی جگہ واپَس آ کر کھال اُدھیڑ نے لگتے ہیں اور اب دوسری جگہ والے’’ انتظار‘‘ کی آگ میں سُلگتے ہیں ۔ اِس طرح لوگ بَہت تکلیف میں آتے، باتیں بناتے،قصّاب کو بُرا بھلا کہتے ہیں اورپھر کئی گناہوں کے دروازے کھلتے ہیں ۔قصّابوں کو چاہئے کہ کام اُتنا ہی لیں جتنا سلیقے کے ساتھ کر سکیں اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
{15}قصّاب کو چاہئے کہ گوشْتْ بناتے وَقت حرام اَجْزا جُدا کر کے پھینک دے۔ جسے گوشْتْ کھانا ہو اُس پر ذبیحہ کی حرام چیزوں کی شناخت فرض اورمکروہِ تحریمی اجزا کی پہچان واجِب ہے تاکہ گناہوں بھری چیزیں نہ کھا ڈالے۔(گوشْتْ کے نہ کھائے جانے والے اجزا کا بیان آگے آ رہا ہے)
{16} گوشْتْ فَروش کو چاہئے کہ قربانی کے دنوں میں پیسے کمانے کی حرص کے سبب شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 100 جانور غَلَط سلط کاٹ کر اپنی آخِرت داؤ پر لگانے کے بجائے شریعت کے مطابِق بے شک صِرْف ایک ہی جانور کاٹے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دونوں جہانوں میں اِس کی خوب برکتیں پائے گاکہ پیسوں کے لالچ میں جلد بازی کی وجہ سے اِس کام میں بسا اوقات بَہُت سارے گناہ کرنے پڑ جاتے ہیں ۔
{17}بعض گوشْتْ فروش بیچنے کے بڑے (اور چھوٹے) جانور کی کھال اُتار لینے کے بعد گوشْتْ کے اندر موجوددل میں کٹ لگا کر اُس میں یاخون کی بڑی نس میں پائپ کے ذَرِیْعے پانی چڑھاتے ہیں ، اِس طرح کرنے سے گوشْتْ کا وَزْن بڑھ جاتا ہے۔اِس طرح کا گوشْتْ دھوکے سے بیچنا بھی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔بعض مُرغی کا گوشْتْ بیچنے والے ذَبْح کے بعد مُرغی کے پَر اُتار کر پیٹ کی صفائی کر کے صِرف دل اُس میں لگا رہنے دیتے اور اُس مرغی کوتقریباً15مِنَٹ کیلئے پانی میں ڈالدیتے ہیں ، اِس طرح اِس کے گوشْتْ کا وَزْن تقریباً 150گرام بڑھ جاتا ہے۔ذَبح شُدہ کمزور بکرے کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اُس کی بونگ کے ذَرِیعے گوشت میں منہ سے ہوا بھر کر گوشت کوپھلا دیتے ہیں ، گاہک گوشت لیکر گھر پہنچتا ہے تو ہوا نکل چکی ہوتی ہے اور گوشت کی تہ والی ہڈیاں رہ جاتی ہیں ۔ یہ بھی سرا سر دھوکا ہے،بالخصوص قربانی کے دنوں میں وَزْن سے بیچے جانے والے زندہ بکروں وغیرہ کو بَیسن (یعنی چنے کا آٹا) کھلا کر اُوپر خوب پانی وغیرہ پلا کر ان کا وَزْن بڑھا دیا جاتا ہے ، ایسے جانور بھی یُوں دھوکے سے بیچنا گناہ ہے۔ یا درکھئے! حرام کمائی میں کوئی بھلائی نہیں ۔ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :جس نے حرام کا ایک لقمہ کھایااُس کی چالیس دن کی نَمازیں قَبول نہیں کی جائیں گی اور اس کی دعاچالیس دن تک نامقبول ہو گی۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج ۳ ص ۵۹۱ حدیث ۵۸۵۳ ) مزید ایک روایت میں ہے: ’’انسان کے پیٹ میں جب حرام کا لُقمہ پڑتا ہے، زمین و آسمان کا ہرفِرِشتہ اُس پر اُس وقت تک لعنت کرتا ہے جب تک کہ وہ حرام لقمہ اُس کے پیٹ میں رہے اور اگر اسی حالت میں مر گیا تو اس کا ٹھکانہ جہنَّم ہو گا۔‘‘ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۱۰)
{18}دُرُست کام کرنے میں یقینا وَقت زیادہ صَرْف ہو گا ، اِس پر ہو سکتا ہے ہم پیشہ افراد مذاق بھی اُڑائیں مگر اِس پر صَبْر کیجئے،خبردار! کہیں شیطان لڑائی بِھڑائی میں اُلجھا کر گناہوں میں نہ پھنسا دے!
{19} گوشْتْ کا جو حصّہ گوبر یا ذَبْح کے وَقْت نکلے ہوئے خون والا ہو جائے، اُس کو جُدا رکھئے اور گوشْتْ کے مالِک کو بتا دیجئے تا کہ وہ اسے الگ سے پاک کر سکے۔ پکانے میں اگر ایک بھی ناپاک بوٹی ڈالدی تو وہ پوری دیگ کا قورمہ یا بریانی ناپاک کر دے گی اور اس کاکھانا حرام ہو جائے گا۔ (یاد رہے! ذَبْح کے بعد گردن کے کٹے ہوئے حصّے پر بچا ہوا خون اور گوشْتْ کے اندر مَثَلاً پیٹ میں یا چھوٹی چھوٹی رگوں میں جو خون رہ جاتا ہے وہ نیز دل ،کلیجی وغیرہ کا خون پاک ہوتا ہے۔ ہاں دمِ مَسْفُوح یعنی ذَبْح کے وَقْت جو خون بہ کر نکل چکا وہ اگر کٹے ہوئے گلے وغیرہ کو لگ گیا تو ناپاک کر د ے گا)
{20} جانور کاٹنے اور کٹوانے والے کو چاہئے کہ آپَس میں اُجرت طے کر لیں کیوں کہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں دَلالۃً( UNDERSTOOD)یعنی علامت سے معلوم ہو، یاصَراَحَۃً(یعنی کھلَّم کُھلّا،ظاہِراً)اُجرت ثابِت ہو وہاں طے کرنا واجِب ہے۔ایسے موقع پر طے کرنے کے بجائے اِس طرح کہدینا: کام پر آ جاؤ دیکھ لیں گے، جو مناسِب ہو گا دیدیں گے، خوش کر دیں گے ،خرچی ملے گی وغیرہ الفاظ قَطْعاً ناکافی ہیں ۔ بِغیر طے کئے اُجرت لینا دینا گناہ ہے، طے شُدہ سے زائد طَلَب کرنا بھی ممنوع ہے۔ ہاں جہاں ایسا مُعاملہ ہو کہ کام کروانے والے نے کہا : کچھ نہیں دوں گا ، اُس نے کہدیا: کچھ نہیں لوں گا ۔ اور پھر کام کروانے والے نے اپنی مرضی سے دے دیا تو اس لین دَین میں کوئی حَرج نہیں ۔(ابلق گھوڑے سوار، ص۲۹ تا ۳۷)
Comments