ندائے یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
سوال: کیاہم اپنے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو یارسولَ اللّٰہ، یا نبیَّ اللّٰہ کہہ کر پکار سکتے ہیں،ایسا کرناشرک تو نہیں؟
جواب:نبیوں کے سرور، محبوبِ ربِّ داور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو یارسولَ اللّٰہ، یا نبیَّ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم وغیرہ الفاظ و القاب کے ساتھ نزدیک و دُور سے پکارنا بالکل جائز ہے،ہرگز شرک نہیں ۔
سوال:اس کی کیا دلیل ہے؟
جواب:قرآنِ مجید سے ثبوت:
قرآنِ کریم میں بہت سے مقامات پر اللّٰہ تَعَالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو نداء فرمائی۔ (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ)، (یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ)،( یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ)،( یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ) وغیرہ ان تمام آیات میں حرفِ ندا ’یا‘ کے ساتھ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو خطاب فرمایا ہے۔
حدیثِ مبارک:
صحیح مسلم میں حضرت سیّدُنا بَراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے جوحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے مدینۂ پاک میں داخلے کا منظر بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’عورتیں اور مرد گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور غلام گلی کوچوں میں متفرّق ہو گئے۔ نعرے لگاتے پھرتے تھے، یَامُحَمَّدُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، یَامُحَمَّدُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ۔‘‘ [1]
نماز میں ہر مسلمان کا عمل :
ہر نماز کے تَشَہُّد میں مسلمان التحیات پڑھتے ہیں اور التحیات میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو پکارا جاتا ہے بلکہ یہ پکارنا واجب ہے ۔
سوال:قرآنِ مجید اور حدیثِ پاک میں تو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو ان کی حیاتِ ظاہری میں پکارنے کا ذکر ہے،کیا حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی پکارنا ثابت ہے ؟
جواب:جی ہاں!آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور سلف صالحین آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو پکارتے رہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل تو ابھی التحیات کے ضمن میں نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو پکارنے کی گزرچکی۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے زمانے میں نبوّت کے جھوٹے دعویدارمسیلمہ کذّاب کے خلاف مسلمانوں اور مُرتدّین کے درمیان جنگِ یمامہ ہوئی جس میں مسلمانوں کا نعرہ ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ تھا۔[2]
سوال:کیابزرگانِ دین بھی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو پکارا کرتے تھے؟
جواب: جی ہاں!
حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا عمل:
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا پاؤں سو گیا، کسی نے کہا: انہیں یا د کیجیے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت نے بآوازِ بلند کہا: ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘ فوراً پاؤں کھل گیا۔[3]
حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا عمل:
شارحِ صحیح مسلم امام نووی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کتاب الاذکار میں اس کی مثل حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے نقل فرمایا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس کسی آدمی کا پاؤں سو گیا تو عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: تو اس شخص کو یاد کر جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے تو اس نے ’’یَامُحَمَّدَاہ‘‘ کہا، اچھا ہو گیا ۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’اور یہ اَمر ان دو صحابیوں کے سوا اَوروں سے بھی مَروی ہوا ۔ اہلِ مدینہ میں قدیم سے اس ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ کہنے کی عادت چلی آتی ہے۔[4]
فائدہ :اہلسنّت وجماعتِ اہلِ حق کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام اپنے مزاراتِ طیّبہ میں زندہ ہیں انھیں روزی دی جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف سے بھی یہ بات ثابت ہے تو سیّد الانبیاء کی حیات میں پھر کیسے شبہ ہوسکتا ہے اس لحاظ سے یارَسُوْلَ اللہ کہہ کر پکارنے کے جواز میں کسی قسم کا شک کیا ہی نہیں جاسکتا ہے کہ اللہ کی عطا سے زندہ بھی ہیں اور فریاد کرنے والے کی فریاد سنتے بھی ہیں اور اللہ کی عطا سے مدد کرنے پر قادر بھی ہیں تو ان تمام باتوں میں سے کوئی بات خلافِ شرع نہیں سب جائز و درست اور علمائے حق کی تصریحات سے ان کا جواز ثابت ہے بعض انکار کرنے والے اس عقیدۂ حقّہ ثابتہ سے غافل ہونے کی بناء پر بھی انکار کرتے ہیں اور بعض جانتے بوجھتے عِنادًا انکار کرتے ہیں اور فضائلِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم سے چڑتے ہیں اللہ تَعَالٰی ایسوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۸۶تا۸۹)
[1] ۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق، باب فی حدیث الھجرة…الخ،ص۱۶۰۸، حدیث:۲۰۰۹۔
[2] ۔۔۔۔تاریخ الطبری،ذكر بقية خبر مسيلمة الكذاب …الخ،۲/۲۸۱۔
[3] ۔۔۔۔ الشفاء،فصل فيما روى عن السلف والأئمة (من محبتهم للنبى صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم وشوقهم له)، جزء۲،ص۲۳
[4] ۔۔۔۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۹/۵۵۲)
Comments