(27)…ہمدردیٔ مسلم
ہمدردیٔ مسلم کی تعریف:
کسی مسلمان کی غمخو اری کرنا اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ’’ہمدردیٔ مسلم‘‘ کہلاتاہے۔ہمدردیٔ مسلم کی کئی صورتیں ہیں، بعض یہ ہیں:(۱)بیمار کی عیادت کرنا (۲)انتقال پر لواحقین سے تعزیت کرنا (۳)کاروبار میں نقصان پر یا مصیبت پہنچنے پر اِظہارِ ہمدردی کرنا (۴)کسی غریب مسلمان کی مدد کرنا (۵)بقدرِ استطاعت مسلمانوں سے مصیبتیں دور کرنا اور اُن کی مدد کرنا(۶)علم دِین پھیلانا (۷)نیک اَعمال کی ترغیب دینا (۸) اپنے لیے جو اچھی چیز پسند ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیےبھی پسند کرنا۔ (۹)ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا (۱۰) مقروض کو مہلت دینا یا کسی مقروض کی مدد کرنا(۱۱) دکھ درد میں کسی مسلمان کو تسلی اور دلاسہ دینا۔ وغیرہ (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۳، ۲۳۴)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ( وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ )(پ۲۸،الحشر:۹)ترجمہ کنزالایمان:’’اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو۔‘‘ صدرُالافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک بھوکا شخص آیا، حضور نے ازواجِ مطہرات کے حجروں پر معلوم کرایا کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ معلوم ہوا کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے، تب حضور نے اصحاب سے فرمایا: جو اس شخص کو مہمان بنائے ، اللہ تَعَالٰی اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کھڑے ہوگئے اور حضور سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے ، گھر جا کر بی بی سے دریافت کیا: کچھ ہے ؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں، صرف بچّوں کےلئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ حضرت ابوطلحہ نے فرمایا: بچّوں کو بہلا کر سُلادو اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے اٹھو اور چراغ کو بجھادو تاکہ وہ اچھی طرح کھا لے۔ یہ اس لیے تجویز کی کہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہلِ خانہ اس کے ساتھ نہیں کھارہے ہیں کیونکہ اس کو یہ معلوم ہوگا تو وہ اصرار کرے گا اور کھانا کم ہے بھوکا رہ جائے گا۔ اس طرح مہمان کو کھلایا اور آپ ان صاحبوں نے بھوکے رات گذاری۔ جب صبح ہوئی اور سیّدِعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حُضورِ اَقدس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’رات فلاں فلاں لوگوں میں عجیب معاملہ پیش آیا، اللہ تَعَالٰی ان سے بہت راضی ہے۔‘‘ اور یہ آیت نازل ہوئی۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۴، ۲۳۵)
(حدیث مبارکہ)مصیبت زدہ سے غمخواری کی فضیلت:
حضرت سیدنا جابربن عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’جو کسی غمزدہ شخص سے غمخواری کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحو ں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے غمخواری کرےگا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے عطا کرےگا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۵)
ہمدردیٔ مسلم کا حکم:
اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت، مُجَدِّدِدِین وملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ ہر فردِ اسلام کی خیرخواہی ہرمسلمان پرلازم ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۵)
ہمدردی کا ذہن بنانےاور ہمدردی کی عادت اپنانے کے(7)طریقے:
(1)مسلمانوں سے ہمدردی کے فوائد کو پیش نظر رکھیے:فطری طور پرجب بندے کے سامنے کسی چیز کے فوائد ہوتے ہیں تو وہ اسے پانے میں جلدی کرتا ہے، مسلمانوں سے ہمدردی کرنے کے چند فوائد یہ ہیں: ٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کا حصول ٭دل جوئی ٭مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ٭ حوصلہ افزائی کرنا ٭حسن سلوک کرنا ٭خیر خواہی کرنا٭پریشان حال کی دعاؤں کی برکت سے تکالیف وپریشانی سے نجات ملنا٭رحمت الٰہی کے سبب حصولِ جنت۔وغیرہ وغیرہ
(2)حُسن اَخلاق کوپیش نظر رکھیے: کسی مسلمان سے ہمدردی کرنا اس کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے اَخلاق کا مظاہرہ ہے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’میزانِ عمل میں حسن اَخلاق سے وزنی کوئی اورعمل نہیں۔‘‘[4]
(3) صلۂ رحمی کو پیش نظر رکھیے: عزیزواَقارِب، رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں آجائیں تو اُن کے دکھ درد میں شامل ہونا ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا ہے اوررشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ صلۂ رحمی کا مدنی ذہن بنائے اور جب بھی کوئی رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں مبتلا ہوجائے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرکے صلۂ رحمی کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ اسلام میں صلۂ رحمی کے بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔
(4)اِحترامِ مسلم کو پیش نظر رکھیے:ایک عام مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں احترامِ مسلم بھی ہے، اسلام میں ایک مسلمان مؤمن کی حرمت کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، لہٰذا اپنے اندر احترامِ مسلم کا جذبہ بیدار کیجئے، کسی مسلمان کےتکلیف وپریشانی میں مبتلا ہونے کا پتا چلے تو اسی جذبے کے تحت اس کی ہمدردی کی سعادت حاصل کیجئے۔
(5)حق مسلم کی ادائیگی کی نیت سے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پر چھ6حق ہیں: (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو(۳) جب وہ بلائے توحاضر ہو (۴)جب اس سے ملے تو سلام کرے (۵)جب چھینکے تو جواب دے اور (۶) موجودگی وغیر موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘[5]
(6)بیمار کی عیادت کرکے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا رضائے الٰہی کے لئے اپنے کسی بھائی سے ملنے جاتاہے تو ایک منادی اسے مخاطب کرکے کہتاہے کہ خوش ہو جاکیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے ۔‘‘[6]
(7)مریض کی دعائیں لینے کے لیے اس سے ہمدردی کیجئے: مریض کی دعا بھی مقبول ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہوتی ہے۔‘‘[7](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۷تا۲۳۹)
[1] ۔۔۔۔خزائن العرفان، پ۲۸، الحشر،تحت الآیۃ:۹۔
[2] ۔۔۔۔معجم اوسط ،۶ / ۴۲۹،حدیث:۹۲۹۲ ۔
[3] ۔۔۔۔فتاویٰ رضویہ،۲۴ / ۷۱۸۔
[4] ۔۔۔۔الادب المفرد ، باب حسن الخلق، ص۹۱، حدیث:۲۷۳۔
[5] ۔۔۔۔نسائی، کتاب الجنائز،باب النھی عن سب الاموات، ص ۳۲۸، حدیث:۱۹۳۵۔
[6] ۔۔۔۔تر مذی ،کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی زیارۃ الاخوان ، ۳ / ۴۰۶، حدیث: ۲۰۱۵۔
[7] ۔۔۔۔ ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی عیادۃ المریض، ۲ / ۱۹۱، حدیث: ۱۴۴۱۔
Comments