قِران کا بَیان

قِران کا بَیان

مسئلہ ۱: قِران کے یہ معنی ہیں کہ حج و عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یا پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور ابھی طواف کے چار پھیرے نہ کیے تھے کہ حج کو شامل کرلیا یا پہلے حج کا احرام باندھا تھا اُس کے ساتھ عمُرہ بھی شامل کرلیا، خواہ طوافِ قدوم سے پہلے عمرہ شامل کیا یا بعد میں۔ طوافِ قدوم سے پہلے اساء ت ہے کہ خلاف سنت ہے مگر دَم واجب نہیں اور طوافِ قدوم کے بعد شامل کیا تو واجب ہے کہ عمرہ توڑ دے اور دَم دے اور عمرہ کی قضا کرے اور عمرہ نہ توڑا جب بھی دَم دینا واجب ہے۔ [1] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: قِران کے لیے شرط یہ ہے کہ عمرہ کے طواف کا اکثر حصہ وقوفِ عرفہ سے پہلے ہو، لہٰذا جس نے طواف کے چار پھیروں سے پہلے وقوف کیا اُس کا قِران باطل ہوگیا۔[2] (فتح القدیر)

مسئلہ ۳: سب سے افضل قِران ہے پھر تمتّع پھر اِفراد۔ [3] (ردالمحتار وغیرہ)قِران کے احرام کا طریقہ احرام کے بیان میں مذکور ہوا۔

مسئلہ ۴: قِران کا احرام میقات سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اور شوال سے پہلے بھی مگر اس کے افعال حج کے مہینوں میں کیے جائیں، شوال سے پہلے افعال نہیں کرسکتے۔[4] (درمختار)

مسئلہ ۵: قِران میں واجب ہے کہ پہلے سات پھیرے طواف کرے اور ان میں پہلے تین پھیروں میں رَمَل سنت ہے پھر سعی کرے، اب قِران کا ایک جُز یعنی عمرہ پورا ہوگیا مگر ابھی حلق نہیں کرسکتا اور کیا بھی تو احرام سے باہر نہ ہوگا اوراس کے جرمانہ میں دو دَم لازم ہیں۔ عمرہ پورا کرنے کے بعد طوافِ قدوم کرے اور چاہے تو ابھی سعی بھی کرلے، ورنہ طوافِ افاضہ کے بعد سعی کرے۔ اگر ابھی سعی کرے تو طوافِ قدوم کے تین پہلے پھیروں میں بھی رَمَل کرے اور دونوں طوافوں میں اِ ضطباع بھی کرے۔[5](درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۶: ایک ساتھ دو طواف کیے پھر دو سعی جب بھی جائز ہے مگرخلاف سنت ہے اور دَم لازم نہیں، خواہ پہلا طواف عمرہ کی نیت سے اور دوسرا قدوم کی نیت سے ہو یا دونوں میں سے کسی میں تعیین نہ کی یا اس کے سوا کسی اور طرح کی نیت کی۔ بہرحال پہلا عمرہ کا ہوگا اور دوسرا طوافِ قدوم۔[6] (درمختار، منسک)

مسئلہ ۷: پہلے طواف میں اگر طوافِ حج کی نیت کی، جب بھی عمرہ ہی کا طواف ہے۔[7] (جوہرہ) عمرہ سے فارغ ہوکر بدستور مُحرِم رہے اور تمام افعال بجا لائے، دسویں کو حلق کے بعد پھر طوافِ افاضہ کے بعد جیسے حج کرنے والے کے لیے چیزیں حلال ہوتی ہیں اُس کے لیے بھی حلال ہوں گی۔

مسئلہ ۸: قارِن پر دسویں کی رَمی کے بعد قربانی واجب ہے اور یہ قربانی کسی جرمانہ میں نہیں بلکہ اس کا شکریہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اسے دو عبادتوں کی توفیق بخشی۔ قارِن کے لیے افضل یہ ہے کہ اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے جائے۔ [8] (عالمگیری، )درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۹: اس قربانی کے لیے یہ ضرور ہے کہ حرم میں ہو، بیرون حرم نہیں ہوسکتی اور سنت یہ کہ منیٰ میں ہو اور اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی فجر طلوع ہونے سے بارھویں کے غروب آفتاب تک ہے مگر یہ ضرور ہے کہ رَمی کے بعدہو، رَمی سے پہلے کریگا تو دَم لازم آئے گا اور اگر بارھویں تک نہ کی تو ساقط نہ ہوگی بلکہ جب تک زندہ ہے قربانی اس کے ذمہ ہے۔ [9] (منسک)

مسئلہ ۱۰: اگر قربا نی پر قادر تھا اور ابھی قربانی نہ کی تھی کہ انتقال ہو گیا تو اس کی وصیت کر جانا واجب ہے اور اگر وصیت نہ کی مگر وارثوں نے خود کر دی جب بھی صحیح ہے۔ [10] (منسک)

مسئلہ ۱۱: قارِن کو اگر قربانی میسر نہ آئے کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ مال نہیں، نہ اتنا اسباب کہ اُسے بیچ کر جانور خریدے تو دس روزے رکھے۔ ان میں تین تو وہیں یعنی یکم شوال سے ذی الحجہ کی نویں تک احرام باندھنے کے بعد رکھے، خواہ سات، آٹھ، نو، کو رکھے یا اس کے پہلے اور بہتر یہ ہے کہ نویں سے پہلے ختم کردے اور یہ بھی اختیار ہے کہ متفرق طور پر رکھے، تینوں کا پے در پے رکھنا ضرور نہیں اور سات روزے حج کا زمانہ گزر نے کے بعد یعنی تیرھویں کے بعد رکھے، تیر ھویں کو یا اس کے پہلے نہیں ہوسکتے۔ ان سات روزوں میں اختیار ہے کہ وہیں رکھے یا مکان واپس آکر اور بہتر مکان پر واپس ہو کر رکھناہے اور ان دسوں روزوں میں رات سے نیت ضرور ہے۔ [11] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۲: اگر پہلے کے تین روزے نویں تک نہیں رکھے تو اب روزے کافی نہیں بلکہ دَ م واجب ہوگا، دَم دے کر احرام سے باہر ہو جائے اور اگر دَم دینے پر قادر نہیں تو سر مونڈا کر یا بال کتروا کر احرام سے جُدا ہو جائے اور دو دَم واجب ہیں۔[12] (درمختار)

مسئلہ ۱۳: قادر نہ ہونے کی وجہ سے روزے رکھ لیے پھر حلق سے پہلے دسویں کو جانور مل گیا، تو اب وہ روزے کافی نہیں لہٰذا قربانی کرے اور حلق کے بعد جانور پر قدرت ہوئی تو وہ روزے کافی ہیں، خواہ قربانی کے دنوں میں قدرت پائی گئی یا بعدمیں۔ یوہیں اگر قربانی کے دنوں میں سر نہ مونڈایا تو اگرچہ حلق سے پہلے جانور پر قادر ہو وہ روزے کافی ہیں۔[13](درمختار ،ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: قارن نے طوافِ عمرہ کے تین پھیرے کرنے کے بعد وقوفِ عرفہ کیا تو وہ طواف جاتا رہا اور چار پھیرے کے بعد وقوف کیا تو باطل نہ ہوا اگرچہ طوافِ قدوم یا نفل کی نیت سے کیے، لہٰذا یوم النحر میں طواف زیارت سے پہلے اُس کی تکمیل کرے اور پہلی صورت میں چونکہ اُس نے عمرہ توڑ ڈالا، لہٰذا ایک دَم واجب ہوا اور وہ قربانی کہ شکر کے لیے واجب تھی ساقط ہو گئی اور اب قارِن نہ رہا اور ایام تشریق کے بعد اس عمرہ کی قضا دے۔[14](درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۱۵۴ تا ۱۱۵۷)


[1] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۳.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ''فتح القدیر''

[3] ۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۱،وغیرہ.

[4] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۴.

[5] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۵ ،وغیرہ.

[6] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.و''لباب المناسک'' و''المسلک المتقسط''، (باب القران، فصل فی اداء القران ص۲۶۲.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ''الجوہرۃ النیرۃ''،کتاب الحج، باب القران، ، ص ۲۱۰.

[8] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب السابع فی القران والتمتع، ج۱، ص۲۳۸.

و''الدرالمختار'' ، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۶، وغیرہما۔

[9] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و''المسلک المتقسط''، (باب القران، فصل في ھدی القارن و المتمتع ص۲۶۳.

[10] ۔۔۔۔۔۔ ''لباب المناسک'' و''المسلک المتقسط''، (باب القران، فصل في ھدی القارن و المتمتع ص۲۶۳.

[11] ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب المناسک، الباب السابع في قران و المتمتع، ج۱، ص۲۳۹.و''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۶.

[12] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۸.

[13] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۸.

[14] ۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الحج، باب القران، ج۳، ص۶۳۹.

Share