(22)…اللہ کی رضا پر راضی رہنا
اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تعریف :
خوشی، غمی، راحت، تکلیف، نعمت ملنے ،نہ ملنے، الغرض ہراچھی بری حالت یا تقدیر پر اس طرح راضی رہنا، خوش ہونا یا صبر کرنا کہ اس میں کسی قسم کا کوئی شکوہ یا واویلا وغیرہ نہ ہو ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا‘‘ کہلاتا ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۳)
رضاسے متعلق مختلف صورتیں:
دعا مانگنا، گناہوں سے نفرت کرنا، گناہوں سے بچنے کی دعا کرنا، مغفرت طلب کرنا، گناہ کے مرتکب سے ناراض ہونا، اسباب گناہ کو برا جاننا، اس پر راضی نہ ہونا، امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنا، گناہوں والی سرزمین سے بھاگنا اور اس کی مذمت کرنا، دِین پر معاونت کرنے والے اسباب کو اختیار کرنا،یہ تمام امور رضا کے خلاف نہیں۔شکوہ کے طور پر مصیبت کا اظہار کرنا، دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ناراض ہونا، کھانے کی اشیاء کو برا کہنا اور ان میں عیب نکالنا، یہ تمام امور رضا کے خلاف ہیں۔ اس طرح کہنا کہ ’’فقر آزمائش ہے، اہل وعیال غم اور تھکاوٹ کا باعث ہیں، پیشہ اختیار کرنا تکلیف اور مشقت ہے۔‘‘ یہ تمام باتیں رضا میں خلل ڈالتی ہیں بلکہ بندے کو چاہیے کہ وہ تدبیر اور مملکت کو اس کے مدبر اور مالک کے سپرد کردے اور وہ کہے جو امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا تھاکہ: ’’مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تونگری (مالداری)کی حالت میں صبح کروں یا فقر کی حالت میں کیونکہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے میرے لیے کونسی حالت بہتر ہے۔‘‘[1](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۳،۱۹۴)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ)(پ۷، المائدہ: ۱۱۹)ترجمۂ کنزالایمان:’’اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ ہے بڑی کامیابی ۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُۚ(۶۰))(پ۲۷،الرحمن:۶۰)ترجمۂ کنزالایمان: ’’نیکی کا بدلہ کیا ہے مگر نیکی۔‘‘حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: ’’اِحسان کی انتہا یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندے سے راضی ہو اور یہ وہ ثواب ہے جو بندے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی ہونے کی صورت میں ملتا ہے۔‘‘[2](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۴)
(حدیث مبارکہ)رِضائے الٰہی پر راضی رہنے والے مؤمن:
رسولِ اَکرم شفیع معظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ایک جماعت سے استفسار فرمایا: ’’تم لوگ کیا ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’ہم مؤمن ہیں۔‘‘ اِستفسار فرمایا: ’’تمہارے اِیمان کی کیا نشانی ہے؟‘‘ عرض کی: ’’ہم آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، آسودگی میں شکر الٰہی بجالاتے ہیں اور ربّ تَعَالٰی کی تقدیر پر راضی رہتے ہیں۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ربّ کعبہ کی قسم! تم مؤمن ہو۔‘‘[3] (نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۴، ۱۹۵)
اللہکی رضا پر راضی رہنے کا حکم:
ہرمسلمان پر لازم ہے کہ ہرحال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا پر راضی رہے، رضائے الٰہی پر راضی رہنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۵)
اللہکی رضا پر راضی رہنے کے نو (9)طریقے:
(1)رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے فضائل پر غور کیجئے: تین فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں:(۱)’’خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کو اسلام کی ہدایت دی گئی اور اس کا رزق بقدر کفایت ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔‘‘ (۲) ’’جو شخص تھوڑے رزق پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہو جاتا ہے۔‘‘ (۳) ’’جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے پس اگر بندہ صبر کرے تو وہ اس کو چن لیتا ہے اور اگر راضی رہے تو اس کو برگزیدہ بنالیتا ہے۔‘‘[4]
(2)رضائے الٰہی پر راضی رہنے سے متعلق اقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے: چند اَقوال یہ ہیں:حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: ’’بروزِ قیامت سب سے پہلے ان لوگوں کو جنت کی طرف بلایاجائے گا جو ہر حال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر کرتے ہیں۔‘‘حضرت سیدنا میمون بن مہران عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ’’جو تقدیر پر راضی نہیں اس کی حماقت کا کوئی علاج نہیں۔‘‘ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا: ’’میں کسی انگارے کو زبان سے چاٹوں اور وہ جلادے جو جلادے اور باقی رہنے دے جو باقی رہنے دے، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ جوکام ہوچکا اس کے بارے میں کہوں: کاش نہ ہوتا یا نہ ہونے والے کام کے بارے میں کہوں: کاش ہوجاتا۔‘‘حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں: ’’اِیمان کی سربلندی حکم الٰہی پر صبر کرنا اور تقدیر پرراضی رہنا ہے۔‘‘[5]
(3)رضائے الٰہی پر راضی رہنے سے متعلق حکایاتِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے: اس کے بارے میں حکایات پڑھنے سے بھی رِضائے اِلٰہی پر راضی رہنے کا مدنی ذہن بنے گا۔اس سلسلے میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ جلدپنجم، صفحہ ۱۷۰ سے مطالعہ بہت مفید ہے۔
(4) ’’کیوں‘‘ اور’’ کیسے‘‘ کو اپنی زندگی سے نکال دیجئے: ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ دونوں اَلفاظ رضا پر راضی رہنے کے خلاف ہیں، ایک مشہور حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:’’میں نے خیر اور شرکو پیدا کیا تو اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس کو میں نے خیر کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر خیر کو جاری کیا اور اس شخص کے لیے خرابی ہے جس کو میں نے شر کے لیے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں پر شر کوجاری کیا اور اس شخص کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے جو کہے: کیوں اور کیسے؟‘‘[6]
(5) ’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘ کو بھی اپنی زندگی سے نکال دیجئے:’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘یہ دونوں الفاظ بھی رضا پر راضی رہنے میں بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے، کوئی مالی نقصان پہنچتا ہے تو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’اگر میں یوں کرلیتا تو نقصان نہ ہوتا، یا کاش! میں یوں کرلیتا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ عقلمندی اسی میں ہے کہ بندہ ہرکام کو سوچ سمجھ کر کرے، اس کے فوائد اور نقصانات پر پہلے ہی غوروفکر کرلے، پھر اس کے کرنے پر نفع ہو یا نقصان اسے تقدیر الٰہی جانتے ہوئے راضی رہے، اس پر شکوہ شکایت نہ کرے، واویلا نہ مچائےبلکہ ظاہری اسباب کو اختیار کرتے ہوئے آئندہ کے لیے کوشش کرے۔
(6)تکلیف پر ملنے والے ثواب پر غور کیجئے: تکلیف پر ملنے والے ثواب پر غور کرنے سے رِضائے الٰہی پر راضی رہنے میں مدد ملے گی، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’مسلمان کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے حتی کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں۔‘‘[7] منقول ہے کہ حضرت سیدنا فتح موصلی کی زوجۂ محترمہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کا پاؤں پھسلا اور اُن کا ناخن ٹوٹ گیا تو وہ مسکرانے لگیں، اُن سے عرض کی گئی: ’’کیا آپ کو تکلیف نہیں پہنچی؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ثواب کی لذت نے میرے دل سے تکلیف کی کڑواہٹ کو زائل کردیا ہے۔‘‘[8]
(7)بڑی مصیبت کو پیش نظر رکھیے: جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچے تو اس سے بڑی مصیبت یا تکلیف کو پیش نظر رکھیے، مثلاً ہاتھ پر زخم ہوجائے تو یوں ذہن بنائیے کہ میرے ہاتھ پر فقط زخم ہوا ہے، اگر پورا ہاتھ ہی کٹ جاتا تو میری کیفیت کیا ہوتی؟ فقط پاؤں میں تکلیف ہے، اگر پوری ٹانگ ہی کٹ جاتی تو میری کیفیت کیا ہوتی؟ دنیوی نقصان پہنچے تو یوں ذہن بنائے کہ فقط دنیا کا نقصان ہوا ہے میرا دین تو سلامت ہے،وغیرہ وغیرہ۔ امید ہے کہ اس سے بھی رضائے الٰہی پر راضی رہنے کا مدنی ذہن بنے گا۔ اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوجَل
(8)نیک لوگوں کی صحبت اِختیار کیجئے: صحبت اثررکھتی ہے، بندہ جب ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جن کی زبان ہر وقت شکوہ شکایت سے تررہتی ہے تو اِس پر بھی اُن کا اثر ہوجاتا ہے اور یہ بھی اُس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، جبکہ صبر وشکر کرنے اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے والے لوگوں کی صحبت اسے صابروشاکر اور راضی رہنے والا بنادیتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوجَل تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول بھی اچھی صحبت فراہم کرتاہے، اس مدنی ماحول میں صبر وشکر و رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے، آپ بھی اس مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّوجَل صبر وشکر و رضائے الٰہی پر راضی رہنے کی دولت نصیب ہوگی۔
(9)رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے مقامات کی معلومات حاصل کیجئے:جب تک بندے کو رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے مقامات کا علم نہیں ہوگا کہ جہاں رضائے الٰہی پر راضی رہنا چاہیے تو اس کے لیے رضاکو اختیار کرنا بہت دشوار ہے۔چند مقامات یہ ہیں: (۱) جب کسی عزیز کا انتقال ہو جائے کہ اس موقع پر لوگ عموماً نہایت بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ بعض جاہل افراد تو مَعَاذَ اللہ کفریہ کلمات تک بک دیتےہیں،جس سے ایمان برباد ہوجاتا ہے۔ (۲) کاروبار میں نقصان ہو جائے۔ (۳) ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ (۴) کوئی قدرتی آفت نازل ہو جائے۔ (۵) کسی بھی طرح کی بیماری لگ جائے۔ (۶) اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کو تکلیف پہنچے۔ (۷) گھر یا دُکان میں چوری یا ڈکیتی ہو جائے۔ (۸) بلا وجہ نوکری سے نکال دیا جائے۔ (۹) دوران سفر جیب کٹجائے۔(۱۰) موبائل فون یا گاڑی وغیرہ چھن جائے۔ (۱۱) کوئی چیز گم ہو جائے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۱۹۶تا۲۰۰)
[1] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۵ / ۱۸۱ تا ۱۹۰ماخوذا۔
[2] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۱۵۷۔
[3] ۔۔۔۔معجم اوسط،۶ / ۴۶۷، حدیث: ۹۴۲۷ بتغیر قلیل، احیاء العلوم،۵ / ۱۵۸۔
[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۱۵۹۔
[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۵ / ۱۶۴، ۱۶۵بتصرف قلیل۔
[6] ۔۔۔۔ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب من کان مفتاحا للخیر،۱ / ۱۵۵، حدیث: ۲۳۷، ۲۳۸، معجم کبیر،۱۲ / ۱۳۴، حدیث: ۱۲۷۹۷، احیاء علوم الدین، کتاب المحبۃ والشوق۔۔۔الخ، بیان فضیلۃ الرضا، ۵ / ۶۵۔
[7] ۔۔۔۔مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب ثواب المؤمن فیما۔۔۔الخ، ص۱۳۹۱، حدیث: ۲۵۷۲۔
[8] ۔۔۔۔ احیاء العلوم،۵ / ۱۶۷۔
Comments