گناہوں سے پاک حج
(از: مفتی ابو صالح محمد قاسم عطاری)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌۚ-فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (پ2،البقرہ:197)
ترجمہ: حج چند معلوم مہینے ہیں تو جو اِن میں حج کی نیت کرے توحج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اور نہ کوئی گناہ ہو اور نہ کسی سے جھگڑا ہو۔
تفسیر:حج ایک مُقَدّس عبادت ہے جس کے ارکان کی ادائیگی برکت والے شہر مکّۂ مکرمہ کے مقدس مقامات یعنی خانۂ کعبہ کے اردگرد، صفا و مروہ پر اور حُدودِ مکّہ سے باہر معزز و محترم مقامات مِنیٰ، مُزْدَلِفہ اور عَرَفات میں ہوتی ہے۔ سفرِ حج ادب، احترام، تعظیم، بندگی، محبت، وارفتگی اور اطاعت کا سفر ہے جس میں ہر قدم پر شَرْعی احکام کے زیور سے آراستہ رہنے کا حکم ہے، اس لئے اس سفر کو گناہوں سے آلودہ کرنا سخت معیوب اور نہایت ناپسندیدہ ہے۔ شروع میں مذکور آیتِ قراٰنی میں حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص احرام باندھ کر نیت و تلبیہ کے ساتھ حج شروع کرلے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی حلال بیوی کے سامنے بھی ہم بستری کا تذکرہ کرے اور نہ ہی زبان کو فحش و بیہودہ گفتگو سے آلودہ کرے، کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور کسی سے بھی دنیاوی معاملے میں جھگڑا نہ کرے یعنی بندے پر لازم ہے کہ اس کا حج گناہوں سے پاک ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دورانِ حج اور ارکانِ حج کی تکمیل کے بعد کثرت سے ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:
فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ(پ2، البقرہ: 198)
ترجمۂ کنز العرفان: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مَشعرِ حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کرو کیونکہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔اور ارشاد فرمایا:
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(پ2، البقرہ:200)
ترجمۂ کنز العرفان:پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرلو تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ (ذکر کرو)۔
حج کے سفر میں بطورِ خاص گناہوں سے بچنے اور ذکرِ الٰہی کی کثرت کا حکم ہے لیکن افسوس! فی زمانہ حج کا سفر ابھی شروع نہیں ہوتا کہ میڈیکل کے جعلی سرٹیفکیٹ اور جھوٹے مَحْرَم بنا کر گناہوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جبکہ دوسری طرف سفر ختم ہوجاتا ہے لیکن گناہ ختم نہیں ہوتے جیسے ریا کاری و حُبِّ جاہ اور ملاقات کے لئے نہ آنے والوں کی غیبتیں وغیرھا وَالْعِیاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ لوگ نیکیاں کمانے اور مغفرت پانے کے سفر میں گناہوں کا انبار لئے وطن واپس لوٹتے ہیں۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ نہایت مقدّس سفر ہے، نیکیوں کے اس سفر میں اجر و ثواب کے خزانے جمع کریں، ہر قدم پر ذکر و دُرود، احکامِ شَرْع کی پابندی، حقوق العباد کی ادائیگی، مسلمانوں کی خیر خواہی، حاجیوں کی خدمت، بوڑھوں کی تکریم، چھوٹوں پر شفقت، خود گناہوں سے اجتِناب اور دوسروں کو ان سے مُمَانَعَت نیز نیکیوں کی دعوت کو اپنا معمول بنالیں۔ ایسے سفر کریں کہ خالق بھی راضی ہو اور مخلوق بھی خوش۔ یوں نہ ہو کہ حج کے ضروری مسائل نہ سیکھ کر، یونہی ان پر عمل نہ کرکے اور سفر میں نمازیں قضا کرکے نیز مقدّس مساجد میں دنیاوی باتیں کرکے، ہوٹلوں اور منیٰ و عرفات میں غیبتوں میں مشغول رہ کر، مسجدِ حرام و منیٰ و عرفات جیسے مقدس مقامات پر بے پردگی اور بد نگاہی کرکے اللّٰہ تعالٰی کو ناراض کر بیٹھیں اور اس بات کا بھی بہت خیال رکھیں کہ حقوق العباد ضائع کرکے، جگہ جگہ شور مچاکر، دوسروں کو برا بھلا کہہ کر بلکہ گالی تک دے کر، لڑائی جھگڑا مول لے کر، دوسروں کا سامان بلا اجازت استعمال کرکے، کمرے والوں کی نیند اور آرام خراب کرکے اور خانۂ کعبہ کو چُھونے یا حجرِ اسود کو بوسہ دینے یا حَطِیم میں داخل ہونے کے لئے لوگوں کو دھکے مار کر سینکڑوں کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرکے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی کے ساتھ مخلوقِ خدا کو ہرگز ناراض نہ کریں۔ یونہی نمازی کے آگے سے گزرنے کے گناہ سے بچیں۔منیٰ وعرفات کے خیموں میں لوگوں سے الجھنے سے گریز کریں۔ طواف و سَعِی و رمِی جمرات اور وُقوفِ مِنیٰ و مُزْدَلِفہ و عرفات کے مقامات زورِ بازو دکھانے، دوسروں پر غالب آنے اور دھونس جمانے کیلئے نہیں ہیں بلکہ عاجزی و تَذَلُّل اورخُضُوع و اِنِکسار کے ساتھ ربُّ العالمین سے مغفرت کی بھیک مانگنے کیلئے ہیں۔ خود کو ذرّۂ ناچیز سے کمتر سمجھتے ہوئے اپنی ذات کو بُھلا دیں اور صرف مغفرت و رضائے الٰہی کی طلب میں عبادت و ریاضت اور خیر خواہیِ امت میں مشغول رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک حج کی توفیق بار بار عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(ماہنامہ فیضانِ مدینہ، ستمبر2017، ص ۴)
Comments