دل کی نرمی‏

(16)دل کی نرمی

دل کی نرمی کی تعریف:

دل کا خوفِ خدا کے سبب اِس طرح نرم ہونا کہ بندہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے اور نیکیوں میں مشغول کرلے، نصیحت اُس کے دل پر اَثر کرے، گناہوں سے بے رغبتی ہو، گناہ کرنے پر پشیمانی ہو، بندہ توبہ کی طرف متوجہ ہو، شریعت نے اس پر جو جو حقوق لازم کیے ہیں ان کی اچھے طریقے سے ادائیگی پرآمادہ ہو، اپنے آپ، گھربار، رشتہ داروں وخلق خدا پر شفقت ورحم و نرمی کرے، کلی طور پر اس کیفیت کو ’’دل کی نرمی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۳۵)

آیت مبارکہ :

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-) (پ۴، آل عمران: ۱۵۹) ترجمۂ کنز الایمان:’’تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتےتو وہ ضرور تمہارے گِرد (آس پاس)سے پریشان ہو جاتے۔‘‘(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۳۵)

(احادیث مبارکہ)نرم دل پاک دامن غنی کی فضیلت:

حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ سرورِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’بیشک اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نرم دل ،پاک دامن غنی کو پسند فرماتا ہے اور سنگدل بدکردار سائل کو نا پسند فرماتاہے ۔‘‘[1] حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں دل کی‏سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مساکین کو کھانا کھلا۔‘‘[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۳۵،۱۳۶)

دل کی نرمی کا حکم:

وہ اُمور جو دل کی سختی دور کرنے اور دل میں نرمی پیدا کرنے کا سبب بنیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۳۶)

د ل میں نرمی پیدا کرنے کے دس (10)طریقے:

(1)دل کی سختی کے ممکنہ نقصانات پر غور کیجئے:چند نقصانات یہ ہیں: ٭دل کی سختی عمل کو ضائع کردینے کا ایک سبب ہے۔ ٭سخت دلی سے بے رحمی کا اندیشہ ہے۔ ٭سخت دل شخص عموماً رحم کرنے کی طرف بہت کم مائل ہوتا ہے۔ ٭سخت دل لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ناپسند ہیں۔ ٭سخت دل لوگوں کی صحبت بری صحبت کہلاتی ہے۔ ٭سخت دل لوگ کل بروزِ قیامت غضب اِلٰہی کا شکار ہوسکتےہیں۔٭ اُن کو حساب میں دشواری کا بھی اندیشہ ہے۔٭ ربّ تَعَالٰی کی ناراضی کی صورت میں انہیں جہنم کا عذاب کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔٭سخت دلی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے قہروغضب کی علامت ہے۔٭ سخت دل لوگ دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ

(2)نرم دلی کے فوائد پر غور کیجئے:چند فوائد یہ ہیں: ٭ نرم دل شخص رحم دل ہوتا ہے،٭سب پر رحم کرتا ہے،٭ نرم دل لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو پسند ہیں،٭نرم دلی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے،٭نرم دلی خوش بختی کی علامت ہے، ٭نرم دل شخص کی عزت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔٭جسے نرم دلی عطا کی جاتی ہے اسے دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیاں عطا کردی جاتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

(3)بھوک سے کم کھائیے:‏ اس سے دل نرم ہوتا ہے، پیٹ بھر کر کھانے سے دل کی سختی پیدا ہوتی ہے۔ بعض صالحین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کا فرمان ہے:’’بھوک ہمارا سرمایہ ہے۔‘‘اِس قول کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں جو فراغت، سلامتی، عبادت، حلاوت، علم اور عملِ نافع وغیرہ نصیب ہوتا ہے وہ سب بھوک کے سبب اور صبر کی برکت سے ہوتا ہے۔حضرتِ سیدناسفیان ثوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:’’دل کی سختی کے دو اَسباب ہیں: (۱)پیٹ بھر کر کھانا(۲)زِیادہ بولنا۔‘‘[3]

(4)فضول گفتگوسے پر ہیز کیجیے:فضول گوئی سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے، یوں دل نہ تو کسی پہ رحم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں،کسی کے بارے میں جس قدر منفی‏(غیبت،چغلی ،تہمت پر مشتمل)گفتگو کی جاتی ہے اسی قدر دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ سب فضول گوئی کی بری عادت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا دل میں نرمی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو زبان کو فضول گفتگو سے بچاتے ہوئے قفل مدینہ لگائیے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’ذکرُاللہ کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو کیونکہ ذکرُاللہ کے بغیر زیادہ کلام دل کی سختی ہے اور سخت دل لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ (کی رحمت وعنایت) سے سب سے زیادہ دور ہیں۔‘‘[4]حضرتِ سیدنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں :’’ اگر تو اپنے دل میں سختی یااپنے بدن میں سستی یا اپنے رزق میں محرومی دیکھے تو یقین کرلے کہ تو نے کوئی فضول گفتگو کی ہے۔‘‘[5]

(5)گناہوں کے خلاف اِعلان جنگ کردیجئے: گناہ خواہ ظاہر ی ہو یا باطنی ،دونوں ہی دل کی سختی کا سبب ہیں اور جن کے دل نرم ہوتے ہیں اس کے پیچھے یہ راز پوشیدہ ہوتا ہے کہ وہ گناہوں سے ہر صورت بچتے ہیں ۔لہٰذا دل میں نرمی پیدا کرنے کے لیے آپ بھی گناہوں کے خلاف اِعلانِ جنگ کردیجیے، گناہوں اور ان کے اسباب وعلاج کی معلومات حاصل کیجئے، خود کو گناہوں سے بچائیے۔گناہوں کی معلومات، ان کے اسباب وعلاج کے لیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان کتب کا مطالعہ بہت مفید ہے: ٭ احیاء العلوم ٭جہنم میں لے جانے والے اعمال ٭باطنی بیماریوں کی معلومات۔

(6)یتیم و مسکین کی خیر خواہی کیجیے:دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک نسخہ یہ بھی ہے کہ یتیم و مسکین کے ساتھ خیرخواہی کی جائے کہ ایک شخص نے حضورنبی کریم، رءوف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں سخت دلی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’اگر تو دل کی نرمی چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔‘‘[6]

(7)موت کو کثرت سے یاد کیجیے: موت دل کی نرمی کا بہترین نسخہ ہے۔ چنانچہ ایک عورت نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی تو انہوں نے فرمایا: ’’موت کو زیادہ یاد کرو اس سے تمہارا دل نرم ہوجائے گا۔‘‘اس عورت نے ایسا ہی کیا تو دل کی سختی جاتی رہی، پھر اس نے ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا شکریہ ادا کیا۔[7]

(8)زِیارتِ قبور کیجیے:زِیارتِ قبور دل کی سختی کا ایک بہترین علاج اور دل کی نرمی میں بہت معاون ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، اب تم قبر وں کی زیارت کیا کرو کیو نکہ زیارتِ قبور دل کی نرمی ، اَشک باری (رونے کا سبب)اور آخرت کی یاد دلانے والی ہے۔‘‘[8]

(9)اللہ والوں کی صحبت اختیار کیجیے :‏مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’جیسے لوہا نرم ہوکر اوزار اور سونا نرم ہوکر زیور اورمٹی نرم ہوکر کھیت یا باغ،آٹا نرم ہوکر روٹی وغیرہ بنتے ہیں ایسے ہی اِنسان دل کا نرم ہوکر ولی، صوفی،عارف وغیرہ بنتا ہے۔ دل کی نرمی اللہ کی بڑی نعمت ہے،یہ نرم دل بزرگوں کی صحبت اور اُن کے پاک کلمات سے نصیب ہوتی ہے۔‘‘[9] اسی طرح حضرت سیدنا احمد بن ابوالحواری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’جب تو اپنے دل میں سختی محسوس کرے تو ذکر کرنے والوں کی مجلس میں بیٹھ جا،دنیا سے بے رغبت لوگوں کی صحبت اختیار کر،اپنا کھانا کم کرلے ،اپنی مراد (خواہش)سے اجتناب کر، برے کاموں سے خود کو روک لے۔‘‘[10] لہٰذا اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے کی برکت سے دل نرم ہوتاہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَل شیخ طریقت، اَمیراہلسنت بانیٔ دعوتِ اِسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی ایک عظیم علمی ورُوحانی شخصیت ہیں، کئی ایسے لوگ ہیں جن کی سخت دلی نے انہیں بہت سے گناہوں اور سنگین جرائم میں مبتلا کردیا تھا، نیکیوں سے کوسوں دور کردیا تھا، انہیں شیخ طریقت امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مبارک صحبت عطا ہوئی، آپ کے بیانات کو سنا، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوئے، ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت اور مدنی انعامات پر عمل شروع کردیا، مدنی قافلوں میں سفر کی سعادت حاصل کی، مدنی مذاکروں میں شرکت کو اپنا معمول بنالیا، اللہ عَزَّ وَجَل کے فضل وکرم سے انہیں دل کی نرمی نصیب ہوگئی، گناہوں سے نفرت مل گئی، نیکیوں سے محبت کا عملی جذبہ بیدار ہوگیا، آپ بھی دل کی نرمی چاہتے ہیں تو شیخ طریقت امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت اختیار کریں، بیانات سنیں، مدنی مذاکروں میں شرکت کریں، اس کی برکت سے ڈھیروں بھلائیاں حاصل ہوں گی۔اِنْ شَآءَاللّٰہ عَزَّ وَجَل

(10)دل کی نرمی کی بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے: دعا مؤمن کا ہتھیار اور عبادت کا مغز ہے۔ ایک شخص نے حضرت سیدنا معروف کرخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:’’دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّ وَجَل میرے دل کو نرم کر دے۔‘‘تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے اس دعا کی تلقین فرمائی:’’یَامُلَیِّنَ الْقُلُوْبِ! لَیِّنْ قَلْبِیْ قَبْلَ اَنْ تُلَیِّنَہ عِنْدَ الْمَوْتِ یعنی اے دلوں کونرم فرمانے والے !میرے دل کو بھی نرم کر دے اس سے پہلے کہ تو موت کے وقت اسے نرم کرے۔‘‘ (آمین) [11](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۳۷تا۱۴۲)


[1] ۔۔۔۔مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب فی الشیخ الجعول والبذء والفاجر،۸ / ۱۴۵،حدیث: ۱۳۰۲۷۔

[2] ۔۔۔۔مسند امام احمد، مسند ابي ھریرۃ،۳ / ۳۳۵، حدیث:۹۰۲۸۔

[3] ۔۔۔۔فیضان سنت، پیٹ کا قفل مدینہ، ص۶۷۸۔

[4] ۔۔۔۔ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۴، حدیث: ۲۴۱۹۔

[5] ۔۔۔۔آنسوؤں کا دریا، ص۲۳۹۔

[6] ۔۔۔۔البر والصلۃ لابن جوزی،الباب الخمسون فی کفایۃ الیتیم، ص۲۳۳، حدیث: ۴۰۳۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۵، ص۴۸۰۔

[8] ۔۔۔۔مسند امام احمد، مسند انس بن مالک،۴ / ۴۷۳، حدیث: ۱۳۴۸۷۔

[9] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح،۷ / ۲۔

[10] ۔۔۔۔الطبقات الصوفیۃ،الطبقۃ الاولی، ص۹۴۔

[11] ۔۔۔۔حکایتیں اور نصیحتیں، ص۳۵۳۔

Share